کیا ہم فطرت سے لاتعلق ہو رہے ہیں؟


کچھ وقت قبل مجھے حیدرآباد، میرپورخاص اور جامشورو کے گرد و نواح کے گاوں میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم فطرت سے اپنا رشتہ توڑتے جا رہے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اب یہ سارے مناظر ہمارے لیے اجنبی سے ہوتے جا رہے ہیں۔

ہم اب نہ تو دریاؤں کے بہتے شور کو محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی سمندر کی مستی سے لطف اٹھاتے ہیں، اب ہمارے لیے اس بات کی بھی اہمیت نہیں رہی کہ پھول کس طرح کھلتے ہیں۔ ان کی خوشبو کس طرح سے ماحول کو مہکاتی ہے۔ آج جہاں ہر طرف سے ہمیں سائنس نے گھیر لیا ہے نت نئی ایجادات ہمیں نہ صرف متاثر کر رہی ہیں بلکہ ہمارے لیے آسانیاں بھی پیدا کر رہی ہیں، تو ہم فطرت سے روز بروز دور ہوتے جا رہے ہیں۔

روسو نے کہا تھا کہ’انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر وہ ہر طرف سے زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے‘۔ یہ زنجیریں اس سماج کی بنائی ہوئی ہیں جس میں آج ہم سانس لے رہے ہیں، مگر ایک شہری زندگی کی بھی زنجیر ہے جس نے ہمارے فطرت کے ساتھ قائم تعلق کو متاثر کیا ہے۔ شہر کی گرد آلود فضا میں سانس لیتے ہوئے ہم اب پھولوں کی خوشبو بھولتے جا رہے ہیں۔ پھولوں کا کھلنا، پرندوں کا چہچہانا، نہروں سے پانی کا گزرنا اور کھیتوں میں لہلہاتے سرسوں کے پیلے پھولوں کو دیکھنے سے بھی اب ہم قاصر ہوتے جا رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ہم سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا سے رابطے میں ہیں اور جہاں چاہیں چند سیکنڈ میں اپنی بات پہنچا سکتے ہیں مگر اس کا ایک درد ناک پہلو یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ جیسی سہولت نے جہاں ہمارے تعلقات جوڑے ہیں وہاں تعلقات توڑے بھی ہیں۔ آج ہم موبائیل سکرین کے اتنے قیدی بن گئے ہیں کہ کہیں بھی بیٹھیں ایک دوسرے سے بات کرنے کے بجائے موبائیل سکرین میں سر کھپاتے رہتے ہیں۔ کمپیوٹر اور موبائیل سکرین کے ہم اتنے غلام بن چکے ہیں کہ گفتگو کرتے ہوئے ہم وہ تمام وجود بھول جاتے ہیں جو ہمارے آس پاس ہوتے ہیں۔

دنیا صرف انسان سے انسان کے قائم رشتے کا نام نہیں ہے بلکہ فطرت سے بھی اپنا تعلق قائم رکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارا تعلق تو فطرت سے اس وقت سے ہے جب پہلا انسان کرہ ارض پہ پیدا ہوا تھا، آج ہم وہ سب سہولیات اپنے لیے چاہتے ہیں جن سے ہم اپنے آپ کو مزید ری لیکس محسوس کر سکیں۔ کسی زمانے میں گرمی سے بچنے کے لیے ہم درختوں کے سائے میں بیٹھ کر تازگی محسوس کرتے تھے مگر اب اپنے کمروں میں اے سی کی ٹھنڈی ہواﺅں کا تو لطف اٹھاتے ہیں اور ارد گرد کے ماحول کو گرم کرکے اسے مزید آلودہ کرکے اپنے لیے تباہی کا سامان بھی تیار کر رہے ہیں۔

ہر وقت شہروں کے شور و غل میں گھرے ہوئے ہم لوگ گاؤں کے کسی پرسکون کھیت میں دو گھڑی سیر کرکے یہ بھی محسوس کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ فطرت ہمیں کتنا سکون فراہم کرتی ہے۔ شہر کی بھیڑ سے بھری سڑکوں پہ دوڑتی گاڑیوں میں چڑھتے اور اترتے ہم یہ بھی بھول چکے ہیں کہ گاؤں میں کسی پگ ڈنڈی پہ کیسے چلا جاتا ہے۔ گلاب کیسے کھلتے ہیں، درختوں میں پھل کب لگتے ہیں اور درختوں کی شاخوں میں پرندے کس طرح گھونسلے بنا کر اپنا جیون گزارتے ہیں۔

شیکسپیئر کے ڈرامے ’ایز یو لائک اٹ‘ میں شامل نظم میں بھی انسان کو فطرت کے ساتھ رشتہ قائم رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے مگر یہ سب اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم فطرت کو تباہ کرنے سے گریز کریں۔ ہم درختوں کو کاٹ رہے ہیں مگر پھر بھی سائے کی تلاش کرتے ہیں۔ فضا میں زہر آلود گیس کا اخراج کرتے ہیں اور تمنا کرتے ہیں ہر طرف تازہ اور صاف ہوا ہو۔ لیکن اس سلسلے میں ہم کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

مجھے اپنے گاؤں کے وہ دن یاد ہیں جب میرا تعلق درختوں، جانوروں، اور چرند پرند سے قائم تھا۔ شام کے وقت گھروں کو لوٹتے جانوروں کی گردن میں لٹکے ہوئے ٹلوں کی موسیقی بھی سنائی دیتی تھی۔ جہاں درخت کاٹنا جرم تھا مگر درخت لگانا ثواب کا کام سمجھا جاتا تھا۔ آج ہمارے لیے یہ سب چیزیں اس لیے اجنبی بنتی جا رہی ہیں کہ ہم ایک ایسی زندگی گزار رہے ہیں جس میں صرف بھاگ دوڑ ہے۔ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی فکر ہے۔ ہم سب کو پیچھے چھوڑنا چاہتے ہیں مگر جو کچھ ہم فطرت سے دور رہ کر چھوڑ رہے ہیں، اس کا اندازہ ہمیں شاید اس وقت نہیں ہو رہا۔

فطرت سے قطع تعلق ہونا خود کو اور بھی اکیلا کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے ہمیں اس سے تعلق کو قائم رکھنا ہوگا۔ جہاں سکون ہے، جہاں ایک نہ ختم ہونے والا اطمینان ہے۔

اختر حفیظ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اختر حفیظ

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔

akhter-hafeez has 20 posts and counting.See all posts by akhter-hafeez