وہ کون تھا؟ (دوسری قسط)


ہیتھرو ایئر پورٹ پر سی سی ٹی وی کھنگالنے کا کام محنت طلب تو ضرور تھا لیکن اس پر لگایا جانے والے ایک ایک لمحے نے اپنی افادیت ثابت کی کیونکہ اس تلاش میں تفتیش کاروں کو اس کی شناخت کا پہلا مثبت اشارہ ملا۔ اس اشارے کا ملنا تھا کہ اس معمے کی گتھیاں سلجھنا شروع ہو گئیں۔

سی سی ٹی وی کی فوٹیج کے معائنے سے تفتیش کاروں کو یہ معلوم ہو سکا کہ یہ شخص دس دسمبر سنہ 2015 کو لاہور سے ہیتھرو آنے والی پرواز پی کے 757 کے ذریعے برطانیہ پہنچا تھا۔

لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے امیگریشن کاونٹر سے ملنے والے تصاویر سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی تھی کہ اس شخص نے لاہور سے ہی اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ وہ لاہور سے پی آئی اے کی اس پرواز سے روانہ ہوا تھا جس نے لاہور سے دن ساڑھے گیارہ بجے اڑان بھری تھی۔

ایئر لائن نے اس کا نام ڈیوڈ لٹن بتایا تھا جس نے لاہور سے لندن تک کے سفر کے لیے ٹکٹ پی آئی اے کے کسی دفتر سے نہیں بلکہ ایک ٹریول ایجنسی سے حاصل کی تھی۔ یہ تفتیش کاروں کے لیے بہت بڑا بریک تھرو تھا، لیکن اس معمے کے حل ہونے میں ابھی بھی بہت سے مراحل باقی تھے۔

برطانیہ میں مختلف نوعیت کے ڈیٹا بیس میں تلاش بے سود ثابت ہوئی کیونکہ نہ تو کسی تازہ ووٹرز لسٹ میں اس کا نام تھا اور نہ ہی اس نام سے کوئی ایڈریس ہی سامنا آیا۔ دوسری جانب تفتیش کاروں کے پاس تفتیش کا دائرہ لندن سے لاہور تک بڑھانے کے لیے وسائل نہیں تھے اور پاکستان سے تمام تر معلومات کے لیے اسلام آباد میں برطانوی سفارت خانے میں تعینات نیشنل کرائم ایجنسی کے اہلکار پر انحصار کرنا پڑ رہا تھا۔

برطانیہ میں تفتیش کو آگے بڑھانے میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کے کسی حقیقی رشتہ دار کی تلاش میں ناکامی تھی۔ تفتیش کاروں کو اس سلسلے میں فوری کامیابی حاصل نہیں ہو پا رہی تھی۔ ڈیوڈ لٹن کے نام سے تلاش میں اس کے کسی بہن بھائی یا ماں باپ کا نام پتہ سامنے نہیں آ رہا تھا۔ جلد ہی تفتیشی ٹیم کو اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔لینڈ رجسٹری سرچ سے تفتیشی ٹیم کو اس بات کا پتہ چلا کہ ڈیوڈ لٹن کا لندن کے علاقے سٹریتھم میں للیان روڈ پر ایک مکان تھا جس اس نے اکتوبر سنہ 2006 میں دو لاکھ بیس ہزار پاونڈ میں فروخت کیا تھا۔

اب تفتیشی ٹیم میں شامل نکولا چیپمین اور کیلی برگ کا اگلا سٹاپ اس وکیل کا دفتر تھا جس کے ذریعے اس گھر کو فروخت کیا گیا تھا۔وکیل کے دفتر میں موجود فائل سے انھیں معلوم ہوا کہ ڈیوڈ لٹن اس کا پیدائشی نام نہیں ہے بلکہ اس کا تبدیل شدہ نام ہے۔ اس کے پیدائشی نام کی مدد سے تفتیشی ٹیم کے ارکان جلد ہی اس کے بھائی جیریمی ایف لاوٹن اور اس کی ماں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور ان کے ڈی این اے کے نمونوں کی مدد سے اس بات کی تصدیق ہو سکی کہ سیڈل ورتھ مور سے ملنے والی لاش ڈیوڈ لٹن کی ہی ہے۔

بوڑھوں کے لیے قائم ایک نرسنگ ہوم میں رہنے والی اس کی ماں سے جان کولمین کو یہ معلوم ہوا کہ اس کی ایک گرل فرینڈ بھی جو گذشتہ دس سال سے نہیں ملی مگر ہر روز فون کر کے اس کی ماں کا حال احوال کا ضرور پتا کرتی ہے۔

ڈیوڈ لٹن کی گرل فرینڈ مورین توگڈ نے جان کولمین کو بتایا کہ اس کی ڈیوڈ کے ساتھ بہت طویل رفاقت رہی ہے اور وہ اسے تین اکتوبر 2006 ءکو مکان فروخت ہونے سے ایک دن ہی پہلے ملا تھا جب وہ معمول کے مطابق اس کے گھر آیا تھا۔

اس کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کے چند روز بعد بھی ڈیوڈ کی ایک پڑوسن نے فون کر کے اس کو اطلاع دی تھی کہ وہ سب چھوڑ چھاڑ کے امریکہ چلا گیا ہے جہاں وہ ریاست فلوریڈا میں رہائش اختیار کرے گا۔

مورین توگڈ کا کہنا تھا کہ اس بات چیت سے اسے بہت حیرانگی ہوئی کیونکہ ملاقات کے دوران اس نے ملک چھوڑ کے جانے کے کسی منصوبے کا ذکر نہیں کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ بغیر بتائے جانے کا سن اس کو بہت رنج ہوا تھا۔ ‘میرا خیال تھا کہ میں نے اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ اس کی رفاقت میں گزارا تھا اور مجھے امید تھی کہ اس بنیاد پر مجھے کچھ عزت تو دے گا۔’
مورین کا کہنا کچھ غلط بھی نہیں تھا، دونوں کی دوستی تین سے زیادہ دہائیوں پر محیط تھی۔

مورین کے مطابق ڈیوڈ سے اس کی شناسائی 70 کی دہائی میں ہوئی تھی جب وہ سڑک پر جاتے ہوئے گِری تھی اور ڈیوڈ نے اسے وہاں سے اٹھا کر ہسپتال پہنچایا تھا۔ اس نے نہ صرف اس کا وہاں اس کا خیال رکھا تھا بلکہ بعد میں بھی وہ باقاعدگی سے اس کی تیمارداری کے لیے آیا کرتا تھا اور اس طرح ان کی شناسائی آہستہ آہستہ محبت میں بدل گئی تھی۔

اس دوران تفتیشی ٹیم سے ایک پاکستانی نڑاد برطانوی شہری کا بھی رابطہ ہوا تھا جس کا نام سلیم اختر تھا۔ وہ بھی ڈیوڈ لٹن کا ایک دیرینا دوست تھا۔
(ساجد اقبال)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments