امبرٹو ایکو کی موت…. اور درختوں کے ہاتھ خالی ہیں


\"aasim\" اکیسویں صدی کے سترہویں برس کے ستم مسلسل جاری ہیں۔پرسوں صبح محترمہ ہارپر لی کے مٹی ہونے کی خبر تو بس آئی گئی ہو گئی کہ ان کا ناول To Kill A Mocking Bird پڑھنے سے بہت پہلے گریگوری پیک ہمارے ذہن میں اپنی لازوال فلم کے ذریعے اس کہانی کو امر کر چکے تھے۔ اپنی کم نویسی کے باعث ہارپر لی نے ہمارے دل کا گوشہ تو ضرور اپنے نام کر لیا لیکن ان کا تخلیقی منطقہ اپنی تمام تر عظمت کے باوجود حد درجے محدود تھا۔ غم کی درست میزان تومشکل ہے، لیکن دن ڈھلے جب معلوم ہوا کہ امبرٹو ایکو بھی آخر حقیقت سے کچھ زائد ہو گئے ہیں تو دکھ اپنے انتظار حسین صاحب کے انتقال سے کچھ کم نہ تھا۔ وجہ شاید یہ ہے کہ قاری اور تخلیق کار کے درمیان بنیادی رشتہ کچھ ایسے دھاگوں سے بندھا ہوتا ہے جو خون یا مٹی کے رشتے کی طرح تقدیری نہیں ہوتے۔یہاں دکھ کی نوعیت ماورائے زمان و مکان ہوتی ہے اور تخلیق کار چاہے مشرق کا ہو یا مغرب کا ، لسانی حوالے سے اپنا ہو یا غیر ، ایک زیاں کی سی کیفیت ہوتی ہے کہ بالآخر تخلیق کا سفر اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ چوراسی سالہ امبرٹو ایکو کی سوانحی تفصیلات تو خیر باآسانی دستیاب ہیں، اس تحریر کا مقصد صرف اردو کے قاری کو ان کی تخلیقی کائنات کی ایک تیزرفتار فضائی سیر سے زیادہ نہیں۔

ایکو بنیادی طور پر تو فلسفی ہی تھے اور علامت ان کا تخصیصی شعبہ تھا لیکن نوعمری سے ہی تنہائی میں قصے کہانیاں لکھ رہے تھے جو آج تک منصہ شہود پر نہیں آ سکے۔ اپنی بذلہ سنجی کے لئے مشہور تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیں تو فلسفی لیکن ویک اینڈ پر ناول لکھتے ہیں۔ پھر 1980ءمیں اڑتالیس سال کی عمر میں جب انہوں نے اپنا پہلا سنجیدہ ناول ”اسمِ گلاب “(The Name of the Rose)لکھا تو دنیائے ادب میں تہلکہ مچ گیا۔ ایکو کے بقول وہ طربیہ نگاری سے متعلق فلسفیانہ مباحث پر کوئی کتاب لکھنا چاہتے تھے لیکن اس کی بجائے یہ ناول لکھ دیا۔ اس معاملے میں ان کا کلاسیکی نظریہ یہی تھا کہ کئی ایسے پیچیدہ خیالات جن کو کسی لگی بندھی تھیوری میں قید کرنا ناممکن ہو کہانی کے ذریعے قاری تک پہنچائے جا سکتے ہیں۔یہ چودہویں صدی کی ایک اطالوی خانقاہ میں کچھ راہبوں پر توہینِ مذہب کے الزام کے گرد گھومتی ایک کہانی ہے۔ ہیرو ایک پادری ہے جسے اس الزام کی تحقیقات کے لئے اس خانقاہ میں بھیجا جاتا ہے۔ لیکن اس کے خانقاہ میں داخل ہوتے ہی یکے بعد دیگے قتل کے سات مختلف واقعات پیش آتے ہیں۔کہانی ایک ساتھ کئی مختلف سوالوں کے گرد گھومتی ہے۔ خانقاہ میں کچھ راہبوں پر توہین مذہب کے الزام کی کیا حقیقت ہے؟ قتل کی ان بظاہر علیحدہ وارداتوں میں کیا قدرِ مشترک ہے؟ خانقاہ میں ایسا کونسا قیمتی راز دفن ہے جس کے گرد چودہویں صدی کی رہبانی سیاست اور اس کی کلیسائی سازشیں گھومتی ہیں؟ ایسے میں پادری ولیم اور اس کا شاگردِ خاص آڈسو ، ارسطو کی منطق، سینٹ ایکویناس کی الٰہیات اور راجر بیکن کی تجربی فکری آلات سے لیس خانقاہ کی اندھیری غلام گردشوں میں ثبوت جمع کرتے چلے جاتے ہیں۔ کہانی بالآخر ارسطو کی بوطیقا میں چھپے ایک راز پر ختم ہوتی ہے۔ناول کی ایک اہم ترین جہت قاری کے لئے ایک پہاڑ جیسا چیلنج پیش کرنا تھا جس کو پوری طرح سر کرنے کے لئے تو خیر ان گنت دفعہ پڑھنے کی ضرورت پیش ٓتی ہے لیکن متن کی چند تہیں کھولنا بھی کچھ اتنا آسان نہیں تھا۔ایکو نے اس ضخیم ناول کو دراصل ایک پہاڑی سلسلے کی طرح ہی تخلیق کیا جس کے پہلے سو صفحات نہایت ادق تفصیلات سے اس طرح مزین کئے گئے تاکہ صرف سنجیدہ قارئین ہی ان سے آگے جا سکیں۔

\"01\"اگر افسانوی تخلیقات کی حد تک ایکو کا بنیادی مقصد تلاش کرنا ہو تو وہ شاید مختلف زاویوں سے انسانی فکر کی احمقانہ جہت کی دریافت کا ایک مسلسل عمل ہے۔ ان کے ساتوں ناول کسی نہ کسی زاوئیے سے اسی ایک سوال کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔لیکن یہ بات ہرگز اس حد تک سادہ نہیں کیوں کہ ایکو کا مقصد ہرگز قاری کو تمسخر پر مائل کرنا نہیں بلکہ اسے اپنے کرداروں کے ساتھ ایک ایسے تعقلی اور جذباتی رشتے میں منسلک کرنا ہے کہ قاری کا شعور حقیقت اور حقیقت کی نقل کے بیچ امتیاز کے قابل ہی نہ رہے۔ ’اسمِ گلاب ‘ میں اس احمقانہ جہت کو قرونِ وسطیٰ کی مذہبی فکر میں کچھ اس طرح تلاش کیا گیا ہے کہ زمانہ جدید میں موجود ایک قاری قرونِ وسطیٰ کے خانقاہی منظرنامے میں موجود کرداروں کی نفسیات کے تعقلی پیمانوں تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہو جائے۔ ایکو کا دوسرا مشہور ناول’ فوکو کا پنڈولم‘ (Foucault’s Pendulum) سازشی نظریات پیش کرنے والے ذہنوں کے ساتھ ایک لامتناہی مکالمہ محسوس ہوتا ہے۔ ناول کے تینوں کردارقدیم اور نادرفلسفیانہ اور مذہبی متون کے محققین ہیں جو مختلف زمانوں کے سازشی نظریات پر مبنی مخطوطات کے مطالعوں سے تنگ آ کر ازراہِ تفنن، ممکنہ طور پر ایک عظیم ترین سازشی نظریہ ایجاد کرتے ہیں جو آج تک کے مکمل زمانی ادوار پر محیط ایک خفیہ ’منصوبہ‘ ہے۔ جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے مسائل پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ شروع میں تو یہ تینوں کردار غیرشعوری طور پر خود ہی اس منصوبے کو حقیقت سمجھنے لگتے ہیں لیکن پھر ایسا ہوتا ہے کہ ان کا منصوبہ دنیا میں موجود دوسرے سازشی ذہنوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جو اپنی نفسیات سے مجبور اس پر فوراً ایمان لے آتے ہیں۔ پورا ناول دقیق لیکن دلچسپ استدلالی مناظر سے اس طرح بھرا ہے کہ آپ ان کرداروں کو اپنے آس پاس گھومتا محسوس کرتے ہیں۔ ایک نمائندہ اقتباس پیشِ خدمت ہے:

”میں تمہیں اس (مسئلے )کی اصل اہمیت سے آگاہ کرتا ہوں جو بادی النظر میں محض ایک فضول ساماقوائی لطیفہ لگتا ہے۔ کاس کو معلوم تھا کہ اگر ایک برتن کو پانی سے بھر کر اوپر سے مکمل طورپر جکڑ دیا جائے تو نیچے سوراخ کرنے پر بھی پانی باہر نہیں آئے گا۔ لیکن اگر اوپر بھی سوراخ کردیا جائے تو فوراً پانی نیچے والے سوراخ سے بہہ نکلے گا۔“

”کیا یہ سامنے کی بات نہیں؟“ میں نے کہا۔ ”ہوا اوپر سے داخل ہو گی اور پانی پر نیچے کی جانب دباو بڑھائے گی۔“

”وہی مخصوص سائنسی وضاحت جس میں یا علل اور آثار کو ایک دوسرے کی جگہ سمجھ لینے کی غلطی کی جاتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ پانی دوسری صورت میں کیوں باہر آتا ہے بلکہ یہ کہ وہ پہلی صورت میں کیو ں باہر آنے سے انکار کر دیتا ہے۔“
”تو پھر وہ کیوں انکار کرتا ہے؟” گیرامونڈ نے تجسس سے پوچھا۔

”کیوں کہ اگر وہ باہر نکل پڑے تو برتن میں خلا پیدا ہو جائے گا اور فطرت خلا سے نفرت کرتی ہے۔’خوفِ خلا‘ ایک روسیکروسی اصول تھا جسے جدید سائنس فراموش کر بیٹھی ہے۔ “

”بہت خوب،“ گیرامونڈ نے کہا۔ ” کاسوبون ، دھاتوں سے متعلق تمہاری شاندار مہماتی تخلیق میں ضرور ان باتوں کا ذکر ہونا چاہئے۔ اور دیکھو اب یہ نہ کہہ دینا کہ پانی دھات نہیں۔ اپنے تخیل کو استعمال کرنا سیکھو۔ “

”معاف کرنا،“ بیلبو ایگلی کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوا ، ”لیکن تمہارا استدلال’ تسبیب ماتقدم ‘کے منطقی مغالطے کی ایک مثال ہے یعنی وہ واقعہ جس کا ظہور بعد میں ہو رہا ہے کیسے اپنے سے قبل پیش آنے والے واقعے کی علت ہو سکتا ہے۔تمہیں سیدھے سادھے خطی انداز میں نہیں سوچنا چاہئے۔ ان چشموں میں موجود پانی ایسا نہیں کرتا۔ فطرت ایسا نہیں کرتی۔ فطرت وقت کو سرے سے جانتی ہی نہیں۔ وقت تو مغرب کی ایجاد ہے۔“

\"04\"ایکو کی مکمل تخلیقی کائنات اسی قسم کے کرداروں سے بھری پڑی ہے۔ ان کے ایک اور ناول کے مرکزی کردار بادی لینو کو فطرت نے دو صلاحیتوں سے نواز اہے۔ وہ بہت سی زبانیں جانتا ہے اور بلا کا دروغ گو ہے۔ تیروہویں صدی کے شروع میں چوتھی صلیبی جنگ کے نتیجے میں جب قسطنطنیہ کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا رہی ہے، بادی لینو ایک اہم تاریخ دان کی جان بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور ایک عجیب و غریب داستان کو تاریخ کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ایک اور کہانی کا مرکزی کردار اپنی یاداشت کچھ اس طرح کھو بیٹھتا ہے کہ خود سے متعلق تو کوئی تفصیلات یاد نہیں ہوتیں لیکن پڑھا ہوا ایک ایک لفظ یاد ہوتاہے، ہر کہانی کا مرکزی خیال اور تمام تر واقعات، ہر نظم کا ایک ایک مصرع اس کی یاداشت میں بالکل محفوظ ہوتا ہے۔ یہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ وہ اپنی بچی کچھی یاداشت کی مدد سے کیسے اپنی نسل کا پورا زمانہ واپس حاصل کر لیتا ہے۔ ایک اور کردار طوفان کے بعد بحری جہاز پر اس طرح ہوش میں آتا ہے کہ تمام عملہ غائب ہوتا ہے اور ہر شے محفوظ ہوتی ہے۔ ایک اور عجیب و غریب کہانی میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا اس کہانی کا مرکزی کردار دنیا کے کونے کونے میں ہونے والی ہر سازش کا ذمہ دار ہے؟ راقم کی رائے میں ایکو کے کسی بھی ناول کا مرکزی خیال تلاش کرنا ایک پہیلی کا جواب بوجھنے سے کم نہیں، لیکن یہ ایک ایسی پہیلی ہے جس کے کئی ممکنہ جواب اس انتھک کوشش سے مشروط ہیں کہ بطور قاری آپ ان کے ضخیم ناولوں میں موجود معانی کی کتنی تہیں کھولنے کے قابل ہیں۔

ان کی تمام تر افسانوی تخلیق کا مجموعی مرکزِ فکر بھی یہی نظر آتا ہے کہ وہ تاریخی تناقضات کے اندر موجود دلچسپ تصورات کو اسی ایک سوال کے گرد گھومتا دیکھتے ہیں کہ آج مستند مانے جانے والے تاریخی حقائق بھی خود تاریخ ہی کے ان گنت واقعاتی عوامل کی پیچیدہ بھول بھلیوں کا شاخسانہ ہیں۔اس موضوع پر تقریباً پچاس ہزار نادر کتابوں اور ان گنت مخطوطات پر مشتمل ان کا عظیم کتب خانہ بلاشبہ عصرِ حاضر کے عظیم نوادرات میں سے ہے۔ کچھ اہم مبصرین کے نزدیک اسے عام فہم معنوں میں کتب خانے کی تعریف کی ایک ضد بھی قرار دیا جا سکتا ہے یعنی ایسی نادر کتابیں جنہیں نہ تو پڑھا جائے اور نہ ہی پڑھنے کی خواہش ہو۔ خود ایکو کے بقول ان میں ایک بڑی تعداد ان کتب کی ہے جن میں موجود نظریات وقت نے غلط ثابت کئے۔ ایسی کتابیں جمع کرنے کے پیچھے ان کی اپنی تحقیق سے جڑے کئی سوالات موجود ہیں۔ وہ ان سوالات کو اپنے یک سطری تبصرے میں اس طرح سمجھاتے ہیں کہ اصل تاریخ ہارے ہوئے کرداروں کی ہے۔ کتاب بطور ایک تصور اور ان کے کتب خانے کے متعلق دلچسپ انکشافات سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کو کتابی شکل میں شائع شدہ ان سے کی گئی ایک گفتگو کو ضرور ملاحظہ کرنا چاہئے جس کا عنوان This is not the End of the Book ہے۔

\"03\"امبرٹو ایکو کا غیرافسانوی کام کئی دہائیوں پر پھیلا ہے جن میں ایکو کے نظریات کئی تبدیلیوں سے بھی گزرے ہیں جو ان کے مضامین کے بہت سے مجموعوں میں محفوظ ہیں۔ مجموعی طور پر ان کے لسانی نظریات پسِ جدیدیت کے فہم اور اس پر تنقید سے عبارت ہیں۔ اس ضمن میں ان کے کام کا ایک بڑا حصہ جمالیات سے متعلق ہے جہاں انہوں نے حسن اور بدصورتی جیسے ناقابلِ فہم تصورات پر بہت دلچسپ پیرائے میں طبع آزمائی کی ہے۔ اپنی دونوں کتابوں میں انہوں نے مغربی آرٹ کی تاریخ میں حسن اور بدصورتی کے بدلتے تصورات پر روشنی ڈالی ہے اور اس قسم کے دلچسپ سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا بدصورتی بھی خوبصورتی کی طرح دیکھنے والے کی آنکھ میں ہی ہوتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ جمالیاتی تاریخ نے بدہئیتی یا بدنمائی کے تصورات کو وہی اہمیت نہیں دی جو خوشنمائی یا خوبصورتی کو دی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بدصورتی کو ہمیشہ خوبصورتی کی ضد ہی سمجھا گیا اور اس پر حتمیت سے تصور سازی کو دلچسپ ہی نہیں سمجھا گیا؟ جمالیاتی تاریخ ہی کی ذیل میں ان کا ایک عجیب و غریب کام” فہرست“ کی شعریات سے متعلق ہے۔یہاں وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مغربی تہذیب میں فہرستوں کی بھرمار کے پیچھے کونسے دلچسپ عوامل کارفرما ہیں؟

بحیثیت مترجم امبرٹو ایکو کے جہانِ تخلیق میں کسی اجنبی تہذیب کے مسافر کی سیر کے امکانات کا نہایت مختصر سا جائزہ نہ لیا جائے تو تشنگی رہ جانے کا امکان ہے۔ ترجمے میں سے متعلق ان کے کچھ اہم خیالات کو مضامین کی شکل میں Mouse or Rat? نامی ایک مجموعے کی شکل میں شائع کیا جا چکا ہے۔ ایکو کے اس قول کی اہمیت کہ ’ترجمہ فنِ ناکامی ہے‘ اس وقت واضح ہوتی ہے جب ان کے کسی بھی ناول کے کچھ حصوں کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ مثال کے طور ہر اگر اوپر دئیے گئے اقتباس کو بغور دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ایک مترجم کو کس طرح پہلی کوشش میں حد درجے ناکامی کا سامنا کرتے ہوئے بہرحال اپنی تمام تر توجہ سمجھوتے پر مرکوز کرنی پڑتی ہے۔مثال کے طور پر مشرقی ثقافت میں ہنرمند طبقات مثلاً انجینئرنگ وغیرہ کے ساتھ کم سے کم درجے میں بھی کوئی ظرافت کی روایت نہیں ملتی۔ ایکو کے امریکی مترجم ولیم ویور یہاں hydraulic joke کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جو ہماری ثقافت میں ماقوائی لطیفے کے طور پر ڈھل کر اگر بالکل بے معنی نہیں تو کم از کم بہت اجنبی محسوس ہوتی ہے۔ اس عبارت میں آگے چل کر ایکو اپنی اصل اطالوی تحریر میں ہی ایک لاطینی اصطلاح nequaquam vecui استعمال کرتے ہیں جسے ان کے امریکی مترجم نے ترجمے کے بغیر اسی طرح چھوڑ دینا مناسب سمجھا۔ اس لاطینی عبارت کے کئی ترجمے ممکن ہیں اور اردو ترکیب ”خوفِ خلا“ ایک ناگزیر سمجھوتہ ہے تاکہ ایک نیم فلسفیانہ بلکہ اساطیری اصول کو کسی ترکیب میں قید کر کے خوشنما بنایا جا سکے۔ اسی طرح روسیکروسیت (Roscicrucianism) فری میسن قسم کی ایک نسبتاً کم مشہور روایت ہے جس سے متعلق فلسفیانہ یا نیم مذہبی عقائد پر مشتمل دو دستاویزات سترہویں صدی کے ابتدائی بیس سالوں میں منظرِ عام پر آئے۔ راقم کو کچھ تلاش کے بعد معلوم ہوا کہ ان دونوں دستاویزات کے قدیم مخطوطے ایکو کے کتب خانے میں موجود ہیں۔ ترجمے کے حوالے سے ذاتی رائے یہی ہے کہ اگر بورخیس کا ترجمہ زبانِ اردو میں ناگزیر سمجھوتے کے بعد بہرحال ممکن ہے اور ایک سے زیادہ بار کیا جا چکا ہے تو امبرٹو ایکو کے معاملے میں ان کے کسی بھی ناول کی ضخامت اور تقریباً ہر دوسرے یا تیسرے جملے میں متروک زبان اور زیادہ تر مفقود یا نادر حوالوں کے باعث کسی ادبی ادارے کی سرپرستی کے باوجود یہ کام کسی بھی مترجم کے لئے نہایت ہی مشکل ہے۔ بالفرض اگر بساط بھر عرق ریزی کے بعد اس ناممکن کو ممکن بھی کر دکھایا جائے تو زبانِ اردو میں شاید اس قسم کی نثر کے قارئین آٹے میں نمک کے برابر ہوں۔ لیکن بہرحال وہ جتنے بھی کم ہوں ،یوں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی زبان میں امبرٹو ایکو کے اجنبی اور سحر انگیز جہان کی سیر کا لطف اٹھانے کے لئے کافی انتظار کرنا پڑے گا۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments