ادبی تنظیمیں اور لاء اینڈ آرڈر کے مسائل


جب کسی ادیب اور شاعر کو یہ خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی تخلیقات کی بدولت مزید مقام حاصل نہیں کرسکے گا تو وہ ایک ادبی تنظیم بنالیتا ہے۔ اس سے ادب کی ہو نہ ہو اس کی اپنی ترویج و اشاعت کا تاحیات سلسلہ چل پڑتا ہے۔ ادب پرور شہر وہی کہلاتا ہے جہاں بے شک بڑا شاعر و ادیب پیدا نہ ہوا ہو مگر ایک مغرور ادبی تنظیم ضرور ہٹ ہوئی ہو۔ ادبی تنظیم کی وجہ سے شہر میں ہر ہفتے ناراضگیاں اور آسامیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں جس میں نوٹ ڈال کر شہر کا ہر متمول شخص بدرجہ استطاعت چندہ جنرل سیکرٹری ، جوائنٹ سیکرٹری ، انفارمیشن سیکرٹری بن سکتا ہے صرف صدارت کیلئے نااہل قرار پاتا ہے کیونکہ اس کا تاحیات اہل صرف وہ ہوتا ہے جس نے اس ادبی تنظیم کی داغ بیل ڈالی ہو۔

شہر میں اگر لسانی اور مذہبی تنظیم نہ بھی ہو تو جملہ فسادات کی ذمہ داری ادبی تنظیمیں باآسانی قبول کرلیتی ہیں۔ جن شہروں میں ادبی تنظیمیں نہ ہوں وہاں پتہ نہیں چلتا کہ کون برا شعر کہہ رہا ہے یا کس کے دامن پر کونسا نیا دھبہ نمودار ہوا ہے۔

اچھی ادبی تنظیم وہ ہوتی ہے جو اپنے مالک کی جیب اور دماغ پر بوجھ نہ ہو بلکہ علی الترتیب ایک کو بھاری اور دوسرے کو ہلکا کرنے کا آسان وسیلہ ہو۔ ادبی تنظیم کا پہلا کام شہر میں مشاعرے منعقد کروانا ہوتا ہے۔ اس کیلئے ایک مہمانِ خصوصی ضروری ہوتا ہے جو مشاعرے اور تنظیم کے بانی کا ماہانہ خرچ اور شعرا کے کلام کو نیند اور وقفہ لئے بغیر برداشت کرنے کی سکت رکھتا ہو۔ شعرا کا انتخاب تنظیم کے بانی کے صوابدیدی اختیارات ، دوستانہ مراسم اور فون کی سِم پر ہوتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ ہر خوش شکل خاتون شاعرہ اور ’بد۔ کلام‘ شاعر کو مشاعرے کی زینت بنایا جائے۔ ہر وہ شاعر جو کلام اور شہرت اور وجاہت میں تنظیم کے بانی سے ایک انگلی بھی آگے ہوتا ہے اسے مشاعرہ گاہ سے دور رکھا جاتا ہے۔ ایسے مشاعرے پریس ریلیز میں کامیاب ترین ہوتے ہیں۔ ان مشاعروں کی روداد بھی تنظیم کے بانی خود لکھتے ہیں تاکہ جابجا اور بےجا اپنی تعریف و توصیف کی جاسکے۔

ادبی تنظیم کا ایک اور اہم کام ایوارڈز کی سالانہ تقسیم ہوتا ہے۔ ایوارڈز میلے اور میلہ مویشیاں میں فرق تلاش کرنا وقت کا زیاں ہے۔ چن چن کر ان کتابوں ، شاعروں اور ادیبوں کو ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے جن کی ادب تو کیا اپنے گھر میں بھی عزت نہیں ہوتی۔ انھیں اپنی کتاب کا نام خود یاد نہیں ہوتا۔ ان کے اشعار اکثر ان کے ہی گلے ہی میں اٹک جاتے ہیں۔ اگر سنادیں تو سامعین ان سے اٹک جاتے ہیں۔ ایوارڈ وصول کرنے والے سے تنظیم کے بانی پہلے ہی سروس چارجز کے نام پر کیش وصول کرچکے ہوتے ہیں تاکہ ایوارڈ کی وقعت اور حرمت برقرار رہے۔

ادبی تنظیموں کا ایک کام مرنے والے قلم کاروں کے لئے تعزیتی پروگرام منعقد کرنا بھی ہوتا ہے۔ مرنے کے بعد تعزیتی پروگرام کرنا مرحوم سے آخری فائدہ اٹھانے کے مترادف ہے۔ اکثر دیکھا گیا کہ جس کے نام کی تقریبات میں صرف پندرہ لوگ جایا کرتے تھے اس کے تعزیتی اجلاس میں پندرہ سو لوگ شریک ہوجاتے ہیں۔ تعزیتی اجلاس سے مرحوم کے علاوہ باقی سب کو کچھ نہ کچھ فائدہ ہوجاتا ہے ، کم از کم چائے سموسے ہی کھانے کو مل جاتے ہیں اور تصویریں الگ کھنچتی ہیں۔ تعزیتی اجلاس میں مرحوم کے علاوہ ہر کوئی آسکتا ہے۔ تعزیتی اجلاس میں مرحوم کیلئے جو تعریفی کلمات کہے جاتے ہیں اگر ان کی زندگی میں کہہ دئیے جاتے تو شاید مرحوم دس سال اور جی لیتے چند ناقدین تعریفی کلمات صرف تعزیتی اجلاس ہی کیلئے بچا کر رکھتے ہیں۔ خواتین کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ تعزیتی اجلاس ہے یا مہندی کا پروگرام۔ تعزیتی اجلاس میں مخالفین بھی مرحوم کی بےپایاں تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ کسی کو خطرہ نہیں ہوتا کہ مرحوم جو کرگیا اب اس سے مزید اچھا کچھ کرپائےگا۔ تعزیتی اجلاس میں وہی مقرر سب سے زیادہ کامیاب کہلاتا ہے جو زیادہ سے زیادہ آنکھوں سے آنسو نکلوادے۔

بیوہ خوبصورت ہو تو تعزیتی اجلاس میں ہر ایک کی نظریں اسی پر گڑی ہوتی ہیں۔ تعزیتی اجلاس کے بعد جملہ تعریفیں بیوہ کی جانب مڑ جاتی ہیں۔ مرحوم کی تعریفیں سن سن کر بیوہ کو یقین نہیں آرہا ہوتا ہے کہ مرنے والا اس کا ہی شوہر تھا۔ تعزیتی اجلاس میں بیوہ کبھی نہیں بولتی کیونکہ مرنے کے بعد بھی بیوہ کو شوہر میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ مرحوم سے زندگی میں جس کی جتنی کم ملاقاتیں ہو وہ مرحوم پر اتنا ہی اچھا بول جاتا ہے۔ مقررین کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ یہ ثابت کردیں کہ وہ مرحوم کے سب سے زیادہ قریب تھے یا یہ کہ مرحوم نے فوت ہونے سے پہلے آخری فون انھیں ہی کیا تھا۔ مرحوم زندگی میں چاہے کتنے ہی بدکردار کیوں نہ رہ چکے ہوں ہر مقرر انھیں جنت بھیجنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ تعزیتی اجلاس میں سب سے زیادہ خوش وہ نظر آتا ہے جو مرحوم کا قرض دار ہو یا حسین بیوہ کا سب سے قریبی دوست۔

اگر کسی شہر میں ادبی تنظیم نہ ہو تو شبہ رہتا ہے کہ یہاں کے باسی ادبی ذوق نہیں رکھتے اور اگر ادبی تنظیمیں ہوں تو یہ شبہ یقین میں بدل جاتا ہے۔ آج ادب میں ادبی تنظیموں کی وہی حیثیت ہے جو پاکستان میں طالبانوں کی۔ ان سےمذاکرات اور اچھے تعلقات کے بغیر ادب میں داخلہ اور جگہ حاصل کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ میں ایک ایسے صاحب کو جانتا ہوں جو چار ادبی تنظیموں اور تین غیر ادبی بیویوں کے شوہر ہیں اور ساتوں کو ’پرافٹ‘ کی بنیاد پر چلارہے ہیں۔ اچھے شعر اور نیک اولاد کے لئے پورا وقت صرف کرتے ہیں مگر شاعر اور ابا کہلانے میں اب تک ناکام ہیں۔ اکثر ادب نواز ان کی بیویوں کے حسن اور اوزان دیکھ کر تنظیم میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اور پھر اپنے اختیار میں نہیں رہتے۔ شہر کے ڈی سی سے لےکر آئی جی جیل خانہ جات تک ان کی وجہ سے شعر کہنے لگے ہیں۔ انھوں نے شہر میں ایسی پرورشِ ’لہو و قلم‘ کی ہے کہ طالبان بھی سر قلم کرنا بھول گئے ہیں۔ اگر ادبی تنظیمیں نہ ہوں تو شہر میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہر وقت سر اٹھائے رکھتا کیونکہ کچھ پتہ نہیں کہ کون کسے شعر سنادے اور کون افسانہ ٹیکسٹ کردے یہ جانے بغیر کہ مخاطب میرے پیار کا خوش مزاج ہے کہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).