جمعیت علمائے اسلام ۔۔۔ ایک عوامی سیاسی جماعت (1)


بائی پولر دنیا میں سیاسی جماعتوں کی ساخت دیکھتے ہوئے انہیں دائیں اور بائیں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ رائٹ ونگ یعنی دائیں بازو کی جماعتیں قدامت پسند، بنیاد پرست اور مذہب پسند کہلاتی تھیں جبکہ لیفٹ ونگ یعنی بائیں بازو کی جماعتیں ترقی پسند، روشن خیال اور سیکولر نظریات کی حامی مانی جاتی تھیں۔ اس زمانے میں سیاسی جماعتوں کی پذیرائی انہی زاویوں کو مدنظر رکھ کر ہوتی تھی۔ ملک کو درپیش چیلنجز، خارجہ پالیسیاں اور جماعت کے نظریات دیکھتے ہوئے ووٹر فیصلہ کرتا تھا کہ کون سے امیدوار کو منتخب کرنا ہے۔ اسی کی دہائی میں جب سوویت یونین زوال کی طرف گامزن ہواتو بائی پولر دنیا بھی ختم ہونے لگی۔ نوے کی دہائی نے یونی پولر دنیا یا پھر یک رخی عالم کو جنم دیا۔ امریکہ بہادر اس نئی دنیا کا فرمانروا مقرر ہوا تو سیاسی جماعتوں میں دائیں اور بائیں کی تقسیم بھی ختم ہو گئی۔ آج کا ووٹر نظریات کے بجائے ذاتی مفاد دیکھ کر انتخاب کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ نظریاتی ووٹر کا وجود مٹ چکا ہو لیکن اتنا ضرور ہے کہ نظریاتی ووٹ مملکتوں کی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی حیثیت کھو چکا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان تنہا نہیں ہے بلکہ لگ بھگ ساری دنیا کا ووٹر سیاسی جماعتوں کے عوامی اور فلاحی کاموں کو مدنظر رکھ کر امیدوار کا انتخاب کرتا ہے۔ چنانچہ برطانیہ میں بریگزٹ، بھارت میں نریندرا مودی اور امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی ہمارے لیے بہترین مثالیں ہیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی فائدے سے خالی نہیں ہو گا کہ جدید یونی پولر ورلڈ میں خالص نظریاتی بنیادوں پر الیکشن لڑنے والی سیاسی جماعتیں رفتہ رفتہ ناکامی کا شکار ہو رہی ہیں۔ ایران میں صدر احمدی نژاد، تیونس اور مصر میں الاخوان المسلمون کی جسٹس پارٹی اور پاکستان میں جماعت اسلامی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ چونکہ جمعیت علماء اسلام بھی اپنے منشور کے مطابق نظریاتی سیاست کی علمبردار جماعت ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمعیت بھی زوال کی جانب گامزن ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ اسی اور نوے کی دہائی میں جمعیت اگر چند سیٹوں تک محدود تھی تو سن دو ہزار کے بعد دو صوبوں میں حکومت اور مرکز میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر براجمان رہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی موجودہ حکومت میں مرکزی حکومت کی کلیدی اتحادی جماعت کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ ایسے میں بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم جمعیت علماء اسلام پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک نظر دوڑائیں اور ان عوامل کی نشاندہی کریں جو آج تک اس کی بقا میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

ہماری تحقیق کے مطابق وہ عوامل مندرجہ ذیل ہیں

1۔ پیٹریاٹزم

جمعیت علماء ہند کے ساتھ فکری روابط کا دعوی کرنے والی جے یو آئی کو وطن پرست جماعت کہنا شاید بہت سے اذہان پر بھاری پڑے کیونکہ جمعیت علماء ہند نے علیحدہ مملکت یعنی قیام پاکستان کی تحریک کی مخالفت کی تھی لیکن اس کے باوجود جے یو آئی وطن پرست جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے، کیونکہ جمعیت علماء اسلام اگرچہ اپنا فکری قبلہ و کعبہ شیخ الہند کو مانتی ہے لیکن پاکستان بننے کے بعد جمعیت نے پاکستان ہی کو اپنی اولین ترجیح بنائے رکھا ہے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ماضی سے کئی مثالیں ہمارے دعوی کو درست ثابت کرتی ہیں جیسا کہ سقوط ڈھاکہ کے دور میں جمعیت علماء اسلام ان سیاسی جماعتوں میں سے ایک تھی جنہوں نے شیخ مجیب اور ذوالفقار علی بھٹو کے تنازع میں ادھرہم اور ادھر تم کا نعرہ لگانے اور عوامی جذبات کے سہارے وقتی فوائد سمیٹنے کے بجائے دو طرفہ مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ فوجی آپریشن سے پہلے شیخ مجیب اور مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کے مابین ٹیبل ٹاک کے جوبھی قابل ذکر دور چلے سب یا تو براہ راست جے یو آئی کی ڈیمانڈ پر ہوئے یا پھر جے یو آئی کی پس پردہ کوششوں کی وجہ سے منعقد ہوئے۔ مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی نے اس مقصد کے لیے براستہ کولمبو ڈھاکہ کا سفر بھی کیا اور شیخ مجیب کو قائل کرنے کی کوششیں کیں کہ وہ اپنے چھ نکاتی ایجنڈے سے دستبردار ہو جائیں یا اس میں ترمیم پر راضی ہو جائیں۔ قصہ مختصر آخر وقت تک جمعیت کی قیادت اس کوشش میں لگی رہی تھی کہ ملک کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکے۔

سقوط ڈھاکہ اور قیام بنگلہ دیش ہی سے جڑا ایک اور بڑا مسئلہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا تھا۔ سن اکہتر میں پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا تھا۔ ہزاروں فوجی بھارتی جیلوں میں، ملک کا مشرقی حصہ جدا، مغربی بارڈر پر افغانستان کا خطرہ جو اس وقت اینٹی پاکستان پالیسی پر عمل پیرا تھا، مشرقی بارڈر پر بھارت۔ الغرض پاکستان چہار جانب سے خطروں میں گھرا ہوا اور عالمی برادری کی نظر میں بے گناہ بنگالیوں کے خلاف مسلح آپریشن کرنے کی وجہ سے قصور وار بھی ڈیکلیئر کیا جاچکا تھا۔ ایسے میں بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا وہ کڑوا نوالہ تھا جسے نگلنا مشکل تھا تو اگلنا ناممکن۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی پاکستان کی قیادت نے ناصرف یہ کہ بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا تھا بلکہ ان ممالک کے سفیروں تک کو ملک بدر کر دیا تھا جنہوں نے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا تھا۔ یوں پاکستان انتہائی خطرناک سفارتی تنہائی کی جانب چل پڑا تھا لیکن جمعیت کی قیادت نے اس کڑے وقت میں بھی ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس غیر اخلاقی اور سراسر جذباتی فیصلے کے خلاف مزاحمت کی اور حکمرانوں پر زور دیا کہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے والے ملکوں کے سفیروں کو فوری طور پر واپس بلایا جائے کیونکہ ہم بنگلہ دیش کو تسلیم کیے بنا بھی ان ممالک کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھ سکتے ہیں جو اسے تسلیم کر لیں۔ مولانا غلام غوث ہزاروی نے اس موقع پر دلیل دی تھی کہ جیسے ہم ایران کے ساتھ برادرانہ مراسم قائم رکھے ہوئے ہیں باوجود اس کے کہ اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے جبکہ ہم اسرائیل کے وجود کے خلاف ہیں بالکل اسی طرح ہمیں ان ممالک کے ساتھ بھی سفارتی و تجارتی تعلقات بحال رکھنے چاہئیں جو بنگلہ دیش کے بارے میں ہمارے مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے۔

جمعیت علماء اسلام کی وطن پرستی اور نظریاتی اقدار کے مابین تصادم کی ایک صورت اس وقت پیدا ہوئی تھی جب ریاستی اداروں نے افغانستان میں سیکیورٹی ڈیپتھ کے نام پر پراکسی وار شروع کی۔ یہ ایسا موقع تھا جہاں جمعیت کو ملکی مفاد کے مقابلے میں اپنے فلسفہ عدم تشدد کی قربانی دینی پڑی اور ملک کے وسیع تر مفاد میں جمعیت نے افغان طالبان کی حمایت کی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے پالیسی ساز اداروں کی نا اہلی کی وجہ سے اس پالیسی کا انجام مفید انداز میں نہ ہو سکا اور آج ہم اس کے تباہ کن نتائج کا سامنا کر رہے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی سچویشن اس وقت بھی پیدا ہو گئی تھی جب وطن عزیز کے خلاف چند گمراہ کن لوگوں نے مسلح تحریک شروع کی اور اپنی ظالمانہ تحریک کے لیے مذہب کا سہارا بھی لیا۔ جمعیت اگر اس وقت مذہبی گروہوں کے پریشر تلے آ جاتی تو آج دہشت گردی کا ناسور اپنی موجودہ کمیت سے کہیں بڑا ہوتا لیکن جمعیت علماء اسلام کی قیادت نے ملکی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان تحریکوں کی کھلے عام مخالفت کی جس کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن پر خود کش حملے تک ہوئے لیکن مولانا نے حب الوطنی کو اپنی ذات سے مقدم رکھا اور اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔

(جاری ہے)

جمعیت علمائے اسلام ۔۔۔ ایک عوامی سیاسی جماعت (2)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments