حق گوئی کے فیشن


(شعیب واجد)۔

جب ہم نے ہوش سنبھالا تو فلسطین کا اشو ہاٹ چل رہا تھا۔ اخبارات بیانات سے بھرے ہوتے۔ جلسوں میں ایسی للکاریں بلند ہوتی کہ دل جوش سے بھرجاتے۔

دوستو ایک لاکھ فلسطینیوں کا خون بہہ چکا، لیکن شاید وہ بات اب پرانی ہوگئی۔ اس لئے اہم نہ رہی۔ لوگوں کے جذبات بھی شاید فیشن پر چلتے ہیں، آج کل فیشن شام کا چل رہا ہے۔

بہت سے لوگوں کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ سن اسی میں افغان جنگ کا آغاز ہوا تو سب مجاہدین کے پیچھے ہو لیے۔ ان دنوں میری نگاہوں سے صابرہ اور شتیلا کے منظر نہیں اوجھل ہوتے تھے۔ لیکن کیا کیجئے کہ ان ہی دنوں فیشن کچھ اورہی چل نکلا تھا۔

افغان جنگ صرف ایک جذبہ جہاد ہی نہیں۔ منافع کا سودا بھی تھا۔ امریکا کے ’’ شانہ بشانہ جہاد ‘‘ کی بدولت پاک افغان خطے میں پرائیوٹ ملیشیا بھی مضبوط ہوتی گئیں۔

نوے میں صدام کویت پر چڑھ دوڑا تو امریکا بہادر نے ایک نیا اتحاد بنا لیا۔ اس وقت ہمیں اندازہ ہوا کہ اصل مسئلہ تو یہ ہے۔ اور پاکستان کی دیواریں صدام زندہ باد سے رنگین نظر آنے لگیں۔

پچانوے میں یوگوسلاویہ چھ ٹکڑوں میں بٹا تو چھٹے ٹکڑے بوسنیا کی آزادی کو سربیا نے نامنظور کردیا۔ اور ایک سال میں ایک لاکھ بوسنیائی کاٹ ڈالے۔ اس وقت بوسنیا کے حق میں جہاد کی ایسی صدائیں بلند ہوئیں جیسی صحافی تنظیمیں آج کل صحافیوں کے لیے بلند کرتی ہیں۔

دوستو : بوسنیا کی جنگ بوسنیا والوں نے خود ہی لڑی۔ لیکن پھر بھی پاکستان، ایران اور سعودی عرب نے مالی طور پر بوسنیا کی تتر بتر حکومت کی مالی طور پر مدد ضرور کی۔ ایرانی بحری جہاز تو بوسنیا کے لئے اسلحہ لیجاتے ہوئے اٹلی کے ساحلوں پر پکڑے بھی گئے۔

دوستو : یہ وہ وقت تھا جب مسئلہ فلسطین مزید پس منظر میں جا چکا تھا۔

بوسنیائی جنگجو اس وقت اپنے اکھڑتے قدم جما رہے تھے۔ جنگ کا نقشہ بدل رہا تھا۔ سن چھیانوے میں بوسنیائی ملیشیا، سربوں سے اپنا پچانوے فیصد علاقہ واگزار کرانے میں کامیاب ہوچکی تھی۔ اس وقت نیٹو بھی حرکت میں آیا۔ اور امریکی طیاروں نے سربیا پر حملہ کرکے جنگ کا مکمل خاتمہ کرادیا۔

ان ہی دنوں کابل پر طالبان راج کی خبر آگئی۔ بوسنیا کا چیپٹر کلوز کرکے جہادیوں نے نئے گھوڑے پر شرط لگا ڈالی۔ بے گھر جہادیوں کو دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ میں شاید پہلی بار ’آزاد وطن ‘ ملا تھا۔ وہاں ایک دھمال مچی ہوئی تھی۔

ان ہی دنوں عراق کا مسئلہ پھر گرم تھا۔ ننانوے میں کلنٹن نے عراق پر دوسرا حملہ کیا۔ اور پہلی بار اپنے کروز میزائل ٹیسٹ کیے۔

دوسری طرف افغانستان میں طالبان حکومت القاعدہ کی آؤ بھگت کا فریضہ انجام دے رہی تھی۔ اس کے بعد نائن الیون ہوگیا۔ اور پھر شروع ہوئی دوسری افغان جنگ۔ جو امریکا کی پہلی ’ بدلے کی جنگ ‘ بھی کہی جاسکتی ہے۔ ایسے میں کوئی فلسطین کا نام لیتا؟ بات سمجھ نہیں آتی۔

بش جو نائن الیون کو پورا ہی کیش کرانے کے موڈ میں تھا، اپنے دور کے آخری سالوں میں کیمیائی ہتھیاروں کے بہانے عراق پر چڑھ دوڑا۔ اور صدام دور کا خاتمہ اور خانہ جنگی شروع کرا کر وہاں سے نکل گیا۔

دو ہزار دس اور چودہ میں اسرائیل نے فلسطین پر دو بڑے حملے کیے۔ لیکن اس وقت بھی ’ حق کے نام لیواؤں ‘ نے بھرپور مذمتوں سے کام چلا لیا۔

پھر لیبیا کا نمبر آیا۔ سب نے دیکھا۔ کہ قذافی کے ساتھ کیا ہوا؟

تازہ کھیل شام میں جاری ہے۔ خطہ پاکستان سمیت پوری ’’امت مسلمہ ‘‘ میں مذمتوں اور جوابی مذمتوں کا دور چل رہا ہے۔ ہمارے ہاں بھی شام کی حمایت کا فیشن عروج پرہے۔ کوئی مرنے والوں کا حامی ہے۔ اور کوئی مارنے والوں کا۔

فلسطین سے شروع ہونے والی کہانی میں نئے نئے ابواب کا اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن ہر نیا اشو پرانے اشو پر حاوی ہوتا جارہا ہے۔ شاید ’فیشن ٹرینڈ‘ کی سیاست کرنے والی قوموں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).