جھگڑا ’’میں‘‘ کا ہے


 ہم لوگ کومل سروں میں بات چیت کرنا بھول چکے ہیں۔ جہاں دیکھیے تند و تیز باتیں، گالیاں، طعنے، طنز، یہ سب کچھ وافر نظر آتا ہے۔ خاص طور پر طنز تو ایسی چھری ہے جو تیز نہ ہو، ذبح بھی کرے گی اور تکلیف بھی زیادہ دے گی۔ جو کچھ بھی اور نہیں کر سکتا وہ طنز ضرور کرے گا۔ جو کر سکتے ہیں وہ لڑائی جھگڑا دنگا فساد سبھی کچھ کریں گے اور سکون سے سائیڈ پر ہو جائیں گے۔ یہ کتھارسس ہے، اپنی ذات میں موجود غبار کو، دکھ کو، افسوس کو باہر دھکیلنا، اپنی بھڑاس نکالنا اور ایسے نکالنا کہ دوسروں کو سولی پرٹانک دیا جائے، صدیوں کا آزمودہ اور کامیاب نسخہ ہے۔

مہاتما بدھ (سدھارتھ) کو گیان ملا اور انہوں نے جانا کہ انسان دوستی اور کشادہ دلی سے بڑھ کر کوئی چیز ایسی نہیں جو دنیا میں سکون دے سکے۔یہ سبق ان کو بے پناہ مجاہدوں اور ریاضتوں کے بعد حاصل ہوا۔ بیوی بچے کو چھوڑ کر جنگلوں میں نکل گئے۔ گھاس پھوس وغیرہ کھاتے رہے، جوگیوں کے سے طور طریقے اپنائے، جسم پر راکھ یا مٹی مل کر بھی دیکھ لیا مگر سمجھ یہی آیا کہ استاد اس طریقے سے نروان ممکن نہیں۔ دل کا سکون اسی میں ہے کہ بستی میں رہا جائے اور بسنے والوں کا سیوک ہوا جائے۔

گوتم بدھ بنارس آ گئے۔ یہاں ان کے چیلے اور بھکشو بھی ان سے آ کر ملتے گئے۔ گوتم بدھ کی زندگی کو ایک کتاب سمجھا جائے تو اس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ زندگی بہرحال دکھ ہے اور اس کی وجہ آپ کی اپنی خواہشات اور توقعات ہیں، ان پر قابو پا لیجیے ‘ دکھ بھی کم ہو جائے گا۔ اس سب سے نمٹنے کے لیے انہوں نے سات آٹھ چیزوں کا ایک پیکیج دیا اور کہا کہ بھئی یہ سب کر لیں گے تو دنیا کے لالچ سے چھٹکارا ملے گا اور دوسروں کے ساتھ اچھے سلوک کی خواہش خود ہی دل میں پیدا ہو گی۔ اس پورے ضابطے میں ایک چیز بہت اہم تھی، اناتہ، مطلب یہ کہ آپ کی ”میں‘‘جو ہے، وہ کچھ نہیں ہے۔ اگر وہ مر جاتی ہے تو شہرت، اقتدار، پیسے وغیرہ کی مرض ختم ہو جائے گی، اور یہ سب ختم ہو گا تو انسان دکھی بھی نہیں رہے گا، دوسروں کے قریب بھی ہو گا اور انہیں اپنا بھی سمجھے گا۔

کون کہتا ہے کہ بھکشو بنا جائے اور پہاڑوں کو نکل لیں، صرف ”میں‘‘ پیدا ہونے کا ایک اہم فیکٹر دیکھتے ہیں۔ بچپن سے جو کچھ بھی پڑھایا جاتا ہے اس کا مقصد اچھا انسان بننا ہوتا ہے۔ بڑے ہو کر اگر مطلوبہ اچھائی کی ایک جھلک بھی انسان اپنے اندر دیکھتا ہے تو اس میں بڑائی کا، اپنی اہمیت کا اور اپنے وجود کو منوانے کا ایک احساس پیدا ہوتا ہے، یہی خیال اس “میں” کے غبارے میں ہوا بھرتا ہے پھر ہوا تھوڑی گرم ہونے کی دیر ہے، غبارہ کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ میں کا غبارہ قابو کیسے ہو؟ کیوں کہ یہ اگر اپنی جگہ پر رہے تو گالیاں، طنز، طعنے، جھگڑے، دنگے اور فساد سے کافی حد تک خلاصی ممکن ہے۔ برتری کا زعم، پاکیزگی کا غرور، پرہیزگاری کا بھرم یا اہم ہونے کا خیال ہی یہ سب کچھ کرواتا ہے!

انا کے درجہ حرارت کو حد میں رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بچپن سے مصوری، موسیقی، رقص، کری ایٹو رائٹنگ، کتابیں پڑھنے، برتن بنانے، باغبانی یا کسی بھی ایسی چیز کی عادت ڈالی جائے جو عمر بھر کے سفر میں بچے کو سوچنے کا مواد مہیا کرتی رہے۔ وہ دیکھ سکے کہ یار میری ذات سے باہر بھی ایک دنیا ہے، اس زمین پر کیسا کیسا ماہر پڑا ہوا ہے، کیا عظیم فن پارے ہیں، کیسی کیسی موسیقی کی دھنیں موجود ہیں، کس درجے کے اعلیٰ رقاص ہیں، کتنا عظیم ادب تخلیق ہوا ہے، قدیم دور سے آج تک ظروف سازی میں کیسی جدتیں لائی گئیں، پودے کیسے خاموشی سے سر جھکائے آندھیوں سے لڑتے ایک ہی جگہ پر کھڑے کھڑے تناور درخت بن جاتے ہیں اور یہ سب دنیا کے ہر حصے میں ہو رہا ہوتا ہے۔

ہوتا یوں ہے کہ یہ سب چیزیں پوری دنیا کا مجموعی ثقافتی ورثہ ہوتی ہیں۔ یہ انسان کو تنہا سب کچھ ہونے کا یا برتر ہونے کا احساس نہیں دلاتیں۔ یہ بار بار یاد دلاتی ہیں کہ میاں دیکھو کوئی مانی تھا، بہزاد تھا، گوگین تھا، مانے تھا، بیتھوون تھا، بورخیس تھا، قطب شیخ تھا، ظہور الاخلاق تھا، ڈالی تھا، خیام تھا، ذاکر حسین تھا، تان سین تھا، مائیکل جیکسن تھا، وان گوف تھا، احمد ظوئے تھا، ٹالسٹائی تھا، معین اختر تھا، بیجو باورا تھا، برجو مہاراج ہیں، تارڑ ہیں، پامک ہیں، موراکامی ہیں، گلزار ہیں اور ان گنت دوسرے ہیں۔ دنیا کی تمام عقل و دانش صرف ہمارے اندر نہیں بھری ہوئی ایک جہان آباد ہے بس آنکھ کھول کر ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھنا پڑتا ہے، عقل والوں کو ایک طلوع صبح کی دلیل کافی ہوتی ہے۔

تو وہ جو کومل سروں میں بات ہوتی ہے، میٹھے لفظوں کا سحر ہے، دھیمے لہجے کا رچاؤ کہہ لیجیے، وہ اس وقت بننا شروع ہوتا ہے جب اپنی برتری کا احساس کم اور دوسروں کے وجود کا ادراک زیادہ ہوتا ہے۔ سیاست ہے، کھیل ہے، عقیدہ ہے، پڑھائی ہے، بین الاقوامی تعلقات ہیں، کچھ بھی ہو، ہر جگہ یہ سب عام انسان ہوتے ہیں، ہم آپ جیسے جو ان میدانوں میں اونچے درجوں تک پہنچتے ہیں۔ پھر اپنی سطح پر بیٹھ کر اہم فیصلے کرتے ہیں۔ جو فیصلے اوباما نے کیے اور جو اب ٹرمپ کر رہے ہیں، نتیجہ سامنے ہے۔ کون فنون لطیفہ کا ذوق رکھتا ہے، دونوں کے پروفائل دیکھ لیجیے۔ کینیڈا کے جسٹن وزیر اعظم کیسے وزیر ہیں اور مودی صاحب کتنے پانی میں ہیں، دونوں کے ذاتی شوق دیکھیے، رجحانات دیکھیے۔ قائد اعظم ہوا کرتے تھے، نہرو صاحب تھے، مولانا ابوالکلام تھے، ذاکر صاحب تھے، بھٹو تھے، بے نظیر تھیں، کوئی سٹیچر تھا، کوئی بات تھی، کچھ چمک تھی، یہ سب کسی وجہ سے تھا، وجہ پہلے عرض کر دی۔ اب کیا ہے کہ ضیا دور کے بعد مقامی تیار شدہ لیڈروں کی مکمل کھیپ دیکھ لیجیے، کم ہی ہوں گے جو اگلوں کے پاسنگ بھی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز اسمبلیوں سے بھی عجیب و غریب خبریں آتی ہیں، کبھی کہیں سے شرم و حیا کا نعرہ بلند ہوتا ہے، کبھی کسی کے گھر والوں کی عزت نیلام ہوتی ہے، جھگڑا خودی کا ہے، انا کا ہے، میں کا ہے، برتری کا ہے، خبط عظمت کا ہے، ذاتی شان کا ہے، جھوٹے مان کا ہے، اپنی ذات کی بڑائی کا ہے! اس کا دف بجانا ہے تو حس لطیف بیدار کرنا ہو گی۔ کچھ نہ کچھ آرٹ کا ذوق بچوں میں پیدا کرنا ہو گا۔ آج بیج لگائیے، بیس تیس برس بعد اس کی چھاؤں میں بیٹھ کر خود بھی میٹھے پھل کھائیں، دوسروں کو بھی چکھنے دیں۔ اللہ بس، باقی ہوس!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain