چھری چاقو تیز کرا لو


میرے بچپن میں کبھی کبھی گھر کے باہر کی گلی سے آواز ابھرا کرتی تھی۔ چھری چاقو تیز کرا لو۔ قینچی تیز کرا لو۔

ہماری کام والی ماسی جو کھانا بھی پکایا کرتی تھی، بڑی زہریلی عورت تھی۔ بختاور اس کا نام تھا۔ اماں کے پاس اپنے بچپن سے تھی اس لیے اماں پر مجھ سے زیادہ اس کی چلتی تھی۔ میرے اور بختاور کے بیچ ہر وقت محاذِ جنگ گرم رہتا تھا کیونکہ اپنے بچاؤ میں وہ ہر ٹوٹنے والی چیز کا الزام مجھ پر لگا دیتی۔ اس کی تو جان چھوٹ جاتی۔ گو کہ مجھے نقصان پر کچھ بھی نہ کہا جاتا۔ بلکہ میرا نام سن کر کہہ دیا جاتا کہ کوئی بات نہیں مگر مجھ سے الزام برداشت نہ ہوتا تھا۔ میرا ہنگامہ اس بات پر ہوتا تھا کہ یہ جھوٹ ہے۔ الزام ہے۔ میں نے ایسا نہیں کیا اور مان لیجیے کہ میں نے ایسا نہیں کیا۔ مگر اماں کا پرسکون چہرہ بتا رہا ہوتا کہ بات انہوں نے بختاور کی مانی ہے۔

خیر، تو جونہی بختاور چھری چاقو تیز کرنے والے کی آواز سنتی، جلدی جلدی گھر بھر کی چھریاں چاقو اور قینچیاں سمیٹتی اور گلی سے گذرتے چھری چاقو تیز کرنے والے کے پیچھے دوڑ لگاتی۔ چھری چاقو تیز کرنے والے۔ ادھر آؤ۔

چھری چاقو تیز کرنے والا پٹھان کندھے پر سائیکل کے پہیے کی سی مشین کندھے پر اٹھائے ہمارے دروازے پر آ کر رکتا۔ بختاور خود اکڑوں ہو کر دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھ جاتی اور ایک ایک چھری، چاقو اور قینچی اسے دیتی جاتی۔ پٹھان انہیں باری باری پہیے پر رکھتا اور پہیے کو پیر سے تیز تیز چلاتا جاتا اور چنگاریاں جو اس کی رگڑ سے پیدا ہو رہی ہوتیں، بختاور ان پر نظریں جمائے بیٹھی ہوتی۔ جو چھری چاقو تیز ہو چکا ہوتا، اس کی دھار کو اپنی انگلی سے چیک کرتی۔ جیسے فلموں میں قاتل قتل سے پہلے خنجر کی دھار چیک کرتا ہے۔

پچھلے کئی دنوں سے مجھے وہ بھولا ہوا منظر یاد آنے لگا ہے۔ چھری، چاقو، گول گول تیز تیز گھومتا پہیہ اور اس کے پیڈسٹل پر چلتا بوسیدہ پشاوری چپل میں پٹھان کا پیر اور پہیے اور چھری چاقو کی رگڑ سے اڑتی ہوئی چنگاریاں اور ان پر گڑی بختاور کی سازشی آنکھیں اور پٹھان کی آواز۔ چھری چاقو تیز کروا لو۔ چھری چاقو تیز کروالو۔

فون پر سوشل میڈیا کا کوئی بھی صفحہ کھولو، جیسے خنجر کی دھار انگلیوں تلے آ گئی ہو اور انگنت لوگ ہم آواز ہو کر سوشل میڈیا کی گلیوں سے گذر رہے ہوں۔ چھری چاقو تیز کروا لو۔ چھری چاقو تیز کروا لو۔

ہر چھری چاقو تلے کسی نہ کسی کی گردن رکھ دی جاتی ہے۔ اس سے کوئی مطلب نہیں کہ جس کی گردن ہے اسے ہم کتنا جانتے ہیں! دراصل جس کی گردن ہے وہ بھی چھری چاقو تیز کرنے ہی اس چوراہے پر اترا تھا۔

ہم میں سے کوئی بھی اس لذتِ گناہ سے بچا ہوا نہیں ہے۔ ہم سب بختاور کی طرح چھری چاقو تیز کرتے پہیے سے اٹھتی چنگاریوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں اور دھار کی تیزی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ سچ مچ اس کام میں اتنی لذت ہے کہ دل چاہتا بھی ہے کہ سوشل میڈیا کے اس چوراہے سے اٹھ جائیں مگر یہ کمبخت دل ہی کہتا ہے کہ نہیں نہیں۔ ایک گناہ اور سہی! ذرا سی لذت اور۔

اوپر سے جو بہت ہی زہین و فطین ہیں وہ میری اماں کی طرح برداشت کا سبق دیتے ہیں کہ ایک دوسرے کو برداشت کرو۔ مگر برداشت ایک جبر ہے جو انسان کی فطرت سے میل نہیں کھاتا۔ انسان کب تک کسی کو برداشت کر سکتا ہے۔ بلآخر اسی پر ٹوٹ پڑتا ہے جسے برداشت کر رہا ہوتا ہے۔ ضرورت acceptance کی ہے جو ہمارے بیچ سے اٹھ گئی ہے۔

ہمیں صرف وہی قبول ہے جو ہمارے خیال سے متفق ہے۔ متفق ہی نہیں، عین ہماری سوچ کی کاربن کاپی ہو۔ ہم اپنی اپنی کاربن کاپی کے لیے قابلِ قبول ہونے کے سرٹیفکیٹس یا فتوے جاری کرنے کو حق سمجھ رہے ہیں۔ ہم قائل کرنے میں بھی یقین نہیں رکھتے۔ ہم اپنا موقف بیان کرنے سے زیادہ دوسرے کے موقف کو رد کرنے یا دوسرے کے کہے کی تردید کرنے کو اظہارِ خیال کی آزادی کہہ رہے ہیں۔

جب دو افراد کے بیچ اختلافِ رائے ہوتا ہے تو بات کرنے کا انداز یوں ہونا چاہیے کہ ” میرے خیال میں یا میری معلومات کے مطابق یہ بات یوں نہیں بلکہ یوں ہے“۔ یا یہ کہ ” آپ کی بات سے مجھے یوں لگ رہا ہے کہ آپ کا مطلب یہ ہے۔ پلیز یہ بات مزید واضح کر دیجیے“۔ یہاں تک کہ بچوں کو جو سبق پڑھایا جاتا رہا ہے گورے صاحب سے سیکھنے کے بعد کہ لفظ پلیز، سوری اور تھینک یو ضرور کہو۔ وہ ہم بڑوں کے بیچ سے اٹھ گیا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی اگر ہماری غلطی کی طرف مناسب طریقے سے نشاندہی کر بھی دے تو بھی ہم اپنی کہی غلط بات کی لاج رکھنے کے لیے اپنی انا کے چھری چاقو تیز کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم براہِ راست گریبان سے پکڑ کر کہنے لگے ہیں کہ تم کافر ہو۔ تم مُلّائیت کے علمبردار ہو۔ تم کیوں مذہبی ہو؟ تم کیوں لبرل ہو؟ لبرل ہو تو تم ملحد بھی ہو۔ مذہبی ہو تو تم انتہا پسند بھی ہو اور دہشت گردی کے ذمہ دار بھی ہو۔

ہم اپنی اپنی صفوں میں بھینسے ڈھونڈ رہے ہیں اور خود بھینسے بنتے جا رہے ہیں۔ کاش چھری چاقو تیز کرنے والے اس ہجوم میں کچھ دیوانے ایسے بھی آ بیٹھیں جو چھری چاقو کی رگڑ سے اٹھتی چنگاریوں کو بجھانے کا کام کریں اور چھری چاقو کی تیز دھار سے قلم نہ سہی وہ کی پیڈ (keypad) ہی تراشیں جس سے رومن میں ہی سہی مگر پیغامِ محبت لکھا جائے۔

میں کبھی کبھی بہت ہی نامناسب مگر خوفزدہ کرنے والی بات سوچا کرتی ہوں کہ ہم پاکستانیوں نے کسی نہ کسی طرح سے لفظ بلوہ سنا بھی ہے اور دیکھا بھی ہے۔ پاکستان بنتے ہی بھی اور پاکستان بننے کے بعد بھی۔ پاکستان کی سرکاری تاریخ تو صرف ہندو بلوائیوں کا ذکر کرتی ہے مگر پاکستان کی گونگی تاریخ کے اندر مسلمان بلوائیوں کی فہرست بھی دبی پڑی ہے۔ مگر میں جو بات سوچا کرتی ہوں اکثر، وہ یہ کہ اگر پاکستان میں ایک بار پھر بلوے پھوٹ پڑیں تو کیا ہم ایک دوسرے کو پناہ دیں گے؟ ہم جو چھری چاقو تیز کرتے کرتے ان کی دھار تیار کر چکے ہیں، کیا ہمارے دوست احباب، ہمیں پہچاننے والے سوشل میڈیا کے راہگیر، ہمارے محلہ دار، ہماری سیاسی، نظریاتی اور مذہبی سوچ و خیال و عقائد سے اختلاف رکھنے والے ہمیں پناہ دیں گے؟

اکثر اپنے ساتھ گپ شپ میں بیٹھے، میرے ساتھ ہی ہنستے مسکراتے چہروں کو دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں سوچا کرتی ہوں کہ اگر بلوے پھوٹ پڑے تو کیا یہ شخص مجھے پناہ دے گا؟ پناہ دینے کا معیار کیا مقرر ہوگا؟ کیا ایک کلمہ کافی ہوگا اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں؟ انسان ہونا تو کافی نہیں ہے، یہ ثابت ہو چکا ہے۔ مگر پھر فرقوں، زبان، اقلیت و اکثریت، کفر و اسلام، ملحد و لبرل و مذہبی، سیاسی و علاقائی و قبائلی وابستگی وغیرہ جیسی علّتوں کی طویل فہرست میں پناہ دینے کے امکانات کیا موجود رہ سکیں گے؟

جواب میں میرے وجود سے ایک سرد سی لہر سرسراتی ہوئی گذر جایا کرتی ہے۔ یوں گمان گذرتا ہے کہ شہر بھر کے دروازے بند ہو چکے ہیں اور سوشل میڈیا کے بلوائیوں کا سمندر ٹوٹ پڑا ہے۔ چھری چاقو تیز کروالو۔ کوئی نہیں ہے اب جو اعلان کرے کہ ابوسفیان اور ہندہ جیسے دشمنوں کے گھر میں بھی پناہ لینے والوں کے لیے امان ہے۔

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah