کم از کم ان سے تو نا کھیلیں!


ایک تو مجھے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکی کہ ہر قابل ِ ذکر سیاستدان ملک کے بنیادی مسائل پر توجہ کرنے، ان کا ایک حقیقی، ٹھوس اور پائیدار حل دینے اور پھر اس حل کو عملی جامہ پہنانے کی مخلصانہ کوشش پر سنجیدگی اور ایمانداری سے توجہ دینے کے بجائے پہلی فرصت میں پاکستان بچانے کا آسان ٹھیکہ کیوں پکڑ لیتا ہے۔

پاکستان بچانے کا تازہ ترین رضاکارانہ ٹھیکہ سید پرویز مشرف نے سنبھال لیا ہے۔ اس سے پہلے وہ نو برس پاکستان بچاتے رہے۔ پھر اگلے پانچ برس خود کو بچانے میں گذر گئے اور اب جب کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی سویلین حکومت پہلی مرتبہ اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد کامیابی سے سبکدوش ہوچکی ہے اور انتخابات ڈیڑھ ماہ کے فاصلے پر ہیں۔ پرویز مشرف چودہ برس میں دوسری بار پاکستان بچانے کے لیے لینڈ کرگئے ہیں۔

سید صاحب کی آمد سے ایک روز پہلے عمران خان نے مینارِ پاکستان پر دوسرا پاکستان بچاؤ جلسہ کر ڈالا۔ دو ماہ قبل شیخ الاسلام طاہر القادری ’’سیاست نہیں ملک بچاؤ ‘‘ کی تلوار لہراتے ہوئے کینیڈاسے انقلابی پھریرے پھیراتے بکتر بند کنٹینر میں سوار اسلام آباد میں داخل ہو گئے۔ مگر جلد ہی پتہ چل گیا کہ ان کی تلوار لوہے کے بجائے دراصل اس لکڑی سے بنائی گئی تھی جس سے کم بجٹ فلموں میں سفید پنی چڑھا کر دشمن کو للکارنے کا کام لیا جاتا ہے اور شوٹنگ پیک اپ ہونے کے بعد کاٹھ کا شمشیر زن ہیرو یاماہا ون ٹوئنٹی فائیو پر گھر روانہ ہوجاتا ہے۔

جماعتِ اسلامی حالانکہ کوئی موسمی پارٹی نہیں ہے۔ مگر اس کے پاس بھی جب کوئی قابلِ ذکر ایشو نہیں ہوتا تو وہ ’’ ہم ملک بچانے نکلے ہیں، آؤ ہمارے ساتھ چلو ‘‘کا ورد کرتی ہوئی کراچی سے پنڈی کی ٹرین پر چڑھ جاتی ہے۔

اسی طرح جب آصف زرداری نے بی بی کی شہادت کے بعد اپنی جانشینی کی وصیت دریافت کرلی تو پاکستان کھپے کا نعرہ لگا دیا۔

ان سے پہلے نواز شریف قرض اتارو ملک سنوارو کا راگ پانچویں کالے میں اٹھانے کے بعد ملک سنوارتے سنوارتے جدہ تک پہنچ گئے۔ مگر پچھلے پانچ برس سے وہ پاکستان کے بجائے جمہوریت بچانے پر سنجیدگی سے کمر بستہ ہیں۔

ضیا الحق نے یہ دلاسہ دیتے دیتے دس برس نکال دیے کہ پاکستان کی بقا کی جنگ افغانستان میں لڑی جا رہی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے جب بھانپ لیا کہ پرانا پاکستان نہیں بچایا جاسکتا تو پھر انھوں نے نیا پاکستان بچانے کا فیصلہ کرلیا۔

یحییٰ خان نے پچیس مارچ انیس سو اکہتر کو مشرقی پاکستان میں آپریشن سرچ لائٹ شروع کرانے کے اگلے روز یہ مژدہ سنا دیا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔

ایوب خان دس برس پاکستان بچاتے رہے۔ پینسٹھ کی جنگ کے باوجود پاکستان تو قائم رہا البتہ ایوب خان قائم نا رہ سکے۔

مختصر یہ کہ اب تک پاکستان کو جتنے بھی حکمراں نصیب ہوئے ان میں ماسوائے محمد علی جناح ہر ایک کو محض پاکستان بچانے سے ہی دلچسپی رہی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی کرنسی نوٹ پر صرف جناح صاحب کی تصویر ہے۔ باقی خدائی فوجدار پاکستان بچاتے بچاتے جانے کدھر غائب ہوگئے۔ پھر بھی شوق ہے کہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ اب تو شاید یہ دنیا کا واحد ملک رہ گیا ہے جسے یہاں کے زعما سدھارنے سے زیادہ محض بچانے سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ بالکل ایسے جیسے کوئی زمانے کا مارا اپنی قطرہ قطرہ جوڑی رقم بینک میں جمع کرانے یا کسی چھوٹے موٹے کاروبار میں لگانے کے بجائے تکیے کے اندر ٹھونس کے بچاتا ہے اور پھر اس تکیے کو اٹھائے اٹھائے گھومتا ہے۔

جس طرح آج ہر ووٹ باز میڈیا پرست کو پاکستان خطرے میں نظر آرہا ہے اسی طرح ایک زمانے میں ان فیشن بدل محافظوں کو اسلام خطرے میں نظر آتا تھا۔ حالانکہ اسلام ان ازخود رضا کاروں کی پیدائش سے کم ازکم چودہ سو برس پہلے سے اپنے بل بوتے پر موجود ہے۔ مگر ہوش کے برعکس جوش اس قدر زیادہ ہے کہ خدا کا یہ وعدہ تک یاد نہیں رہا کہ الہامی کتاب و نظریے کی حفاظت کا ذمہ اوپر والے نے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔

اس تناظر میں کسی بیس تیس چالیس پچاس ساٹھ ستر سالہ جوشیلے کی جانب سے ڈیڑھ ہزار برس سے قائم اسلام کو بچانے کی کوشش بالکل ایسی ہے جیسے کوئی نوزائدہ بچہ اپنے پچاس سالہ باپ کو بچانے کے لیے تلوار سونت کر کھڑا ہوجائے۔ جس اسلام نے ایران، روم، شمالی افریقہ، اسپین، وسطی اور جنوبی ایشیا کی سلطنتوں کو اپنی بے سروسامانی سے ہی رگید دیا۔ آج اسی اسلام کو خطرے میں قرار دیتے ہوئے ایک پندرہ سے بیس سالہ بچے کو جیکٹ پہنوا دی جاتی ہے۔

جو جنگیں نسیم حجازی اور انور عنایت اللہ وغیرہ نے کاغذ پر لڑیں وہی جنگیں سن ستر کے انتخابات کے زمانے میں یومِ شوکتِ اسلام کے بتیس بتیس میل کے جلوسوں میں شامل ہوتی ہوئی ستتر کی تحریکِ نظامِ مصطفی سے ہوتی ہوتی دورِ ضیا کی سرنگ سے گذر کر افغانستان اور کشمیر کے راستے بھوت بن کر پاکستان سے چمٹ چکی ہیں اور اب ہر کوئی پاکستان بچاؤ کی فیشنی چھابڑی اٹھائے مفاداتی سیاست کے بازار میں یا تو آواز لگا رہا ہے یا آوازے کس رہا ہے۔

کیا کوئی بتائے گا کہ اسلام ہو کہ پاکستان ان دونوں میں سے کس نے پچھلے پینسٹھ برس میں کسی پاکستانی سیاسی، مذہبی یا عسکری شخصیت و گروہ کے ساتھ میمورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ ( ایم او یو ) پر دستخط کیے ہیں کہ جناب ہم دونوں شدید خطرے میں ہیں، آئیے ہمیں بچا لیجیے۔

عرض بس اتنی سی ہے کہ اسلام اور پاکستان کوذاتی و گروہی، سیاسی، مذہبی، اقتصادی، عسکری و نظریاتی مفادات کی ڈھال بنانے کے بجائے دونوں کو فی الحال بخش دیجیے۔ کھیل کھیلنے کے لیے اور بھی کئی ڈھالیں، تلواریں، نیزے اور تیر کوچہ ِخود غرضاں بالمقابل شہرِ ناپرساں میں بارعایت دستیاب ہیں۔

پير 25 مارچ 2013


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).