شام، کیمیائی گیس حملہ اور میڈیا


  جب مرے ہوئے بچوں کی وڈیو دکھاتے ہیں تو کون ہوگا جو دکھی نہ ہوتا ہو اور وہ بھی دسیوں مردہ بچوں کو ایک مقام پر لیٹا دیکھ کر۔

 ایک داڑھی والا نوجوان ڈاکٹر ایک زخم کو سونگھتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کلورین گیس نہیں ہے۔

اس کا کہا مان کر امریکہ نے شام کے فضائی اڈے پر 59 ٹام ہاک میزائل داغ دیے جن میں سے 23 نشانے پر لگے ، باقیوں نے عام لوگوں کے گھروں کو پامال کیا جہاں مزید بچے مرے۔

اب سوئٹزرلینڈ کے ڈاکٹر مارچیلو دی نولی سامنے آئے ہیں جو ہارورڈ یونیورسٹی میں طب کے استاد رہے ہیں اور خاص طور پر زہر خورانی کے ماہر ہیں۔ انہوں نے مغربی میڈیا پر شام کے شہر خان شیخون کے ہسپتال کے ان مناظر کی وڈیوز کو بار بار دیکھا ہے جن میں مبینہ کیمیائی حملے میں مارے جانے والے بچوں اور دیگر متاثرین کو دکھایا جا رہا ہے اور جو سی این این پر ٹیلی کاسٹ ہوئی تھیں۔ ان کے کہے ہوئے نکات یہ ہیں:

 1۔ جو پہلے دو عرب صحافی ہسپتال پہنچے تھے ان دونوں کا کہنا تھا کہ انہیں وہاں ایک عجیب و غریب بو محسوس ہوئی تھی۔ ڈاکٹر پروفیسر مارچیلو کے مطابق سارین بے بو، بے ذائقہ اور بے رنگ گیس ہے۔

 2۔ جتنے بچے دکھائے گئے ہیں ان میں سے چند کے منہ سے جھاگ نکلتی دکھائی دی جبکہ باقیوں کے منہ سے جھاگ نہیں نکلی۔ اگر سارین گیس ہوتی تو سب کے منہ سے جھاگ نکلتی۔

 3۔ سارین گیس متاثر شخص سے بھی دوسرے کو متاثر کر سکتی ہے چنانچہ بغیر دستانوں اور ماسک کے کام نہیں کیا جا سکتا جب کہ “وہائٹ ہیلمٹس” کے نام کی تنظیم کے رضاکاروں اور طبی عملے میں سے بیشتر لوگوں نے ایسی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی ہوئی تھیں۔

 4۔ جان بچانے والے جان بچانے کی بجائے جان بچانے کی پراپیگنڈہ وڈیو بڑے بھدے انداز میں بنوا رہے تھے۔ یا تو یہ جان بچانے والے نہیں تھے یا بہت ہی غیر پیشہ ور جیسے ایک بچی جو بالکل مر چکی ہے اس کے سینے پر بجلی کے جھٹکے لگانے والی مشین لگائی ہوئی ہے یا ایک بچہ جس میں زندگی کے آثار بالکل ناپید ہیں، اس کے دل میں مائع والی سرنج بڑے آرام سے سوئی چبھو کر دکھائی جا رہی ہے۔

 ایک اور ماہر نے بتایا کہ سارین گیس اعصاب شکن گیس ہے، اس سے جسم اینٹھ سکتا ہے، سانس بند ہونے سے موت واقع ہوتی ہے، ناک اور منہ سے کبھی خون نہیں نکل سکتا۔

روس کے عسکری مشیروں اور شام کی فوج کا موقف تھا اور ہے کہ خان شیخون جو باغیوں کے زیر عملداری شہر ہے پر شامی فضائیہ کی بمباری سے کسی گودام میں باغیوں کی جانب سے رکھے گیس کے کنستر پھٹ گئے ہونگے جس کی وجہ سے یہ اموات واقع ہوئیں۔

اٹلی کے صدر سرگیو ماتاریلا ایک وفد کے ساتھ روس کے سہ روزہ دورے پر پہنچے ہوئے ہیں۔ آج صدر روس ولادیمیر پوتن نے ان کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک بھیانک بات کہی، انہوں نے کہا کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق شام کے اور علاقوں میں بھی خاص طور پر دمشق کے نواح میں اسی قسم کے کیمیائی حملے کی کوشش کی جائے گی جیسے ڈیڑھ برس پیشتر غوطہ میں کی گئی تھی۔

 انہوں نے عراق پر حملے کا حوالہ دیا کہ کس طرح امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ کولن پاول نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک ٹیسٹ ٹیوب دکھائی تھی جس میں ان کے بقول کیمیائی ہتھیار میں استعمال ہونے والی گیس تھی۔ پوتن نے طنز سے کہا کہ اقوام متحدہ میں ایسی چیز لانی بھی نہیں چاہیے تھی مگر موصوف ٹیسٹ ٹیوب کو زور زور سے ہلا بھی رہے تھے۔ یہ بعد میں جھوٹ ثابت ہوا تھا۔

 مرے ہوئے بچوں کو ایک ہی جگہ پر لٹا کر تصویریں بنانا اور بار بار دکھانا مرنے والوں کے لیے ہمدردی پیدا کرنے کے لیے نہیں بلکہ مبینہ طور پر شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف نفرت پیدا کرنا ہے، ڈاکٹر مارچیلو نے کہا۔ وہ چونکہ ڈاکٹر ہیں سیاستدان نہیں انہوں نے کہا کہ حیرت ہے سیاستدانوں نے اس بارے میں تحقیق کیے بنا شام پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔

 بچے چاہے باغیوں کے ہوں یا دہشت گرد گروہوں کے اراکین کے بہر طور بچے ہیں جو ٹینکوں کے اطراف میں بھی اپنی پلاسٹک سے بنی سائیکلوں پر بے خوف سوار گذرتے ہوئے ٹینکوں کو دیکھتے ہیں۔ بچوں کی موت بہت تکلیف کا موجب بنتی ہے لیکن ایسی وڈیوز دیکھ کر جوش میں آنے کی بجائے ہوش میں رہتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ ایسی حرکت کون کر سکتا ہے۔ وہ جسے ہر جانب سے خطرہ ہے یا وہ جو ہر کسی کے لیے خطرہ ہے۔

 مشرق وسطٰی میں بنیادی لڑائی عالمی دہشت گردی کے خلاف ہے لیکن کچھ عالمی قوتیں اس سے اغماض برت کر مشرق وسطٰی کے دگرگوں حالات کو مزید دگرگوں بنا کر اپنے سیاسی اور معاشی مفادات پانے کے جتن کرتی دکھائی دیتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).