ماروی سومرو کو ہنزہ جا کر پڑھانے کی ضرورت نہیں


آج کل اخبارا ت اور سوشل میڈیا میں اسلام آباد میں ایک لاکھ سے زائد کی تنخواہ چھوڑ کر ہنزہ کے انتہائی دور افتادہ گاﺅں مسگر میں جا کر بچوں کو پڑھانے کا آغاز کرنے والی ماروی سومرو کے حوالے سے تجزیوں اور تبصروں کا بازار گرم ہے۔ ماروی سومرو کے اس فیصلے کومثبت انداز سے لیا جائے یا اس کے اندر منفی عوامل کا بھی کھوج لگایا جائے؟ بحیثیت مجموعی ہم کسی بھی معاملے کا ایک پہلو ہی اجاگر کرتے ہیں۔ جہاں مثبت نظر آیا منفی کو بالکل نظر اندا ز کرکے رکھ دیا۔ جس کی وجہ سے حقائق کا کھوج لگا نے میں بری طرح ناکام ہوجاتے ہیں۔

ہنزہ کا تعلق شمالی پاکستان بالعموم اور بالخصوص پاکستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں خواندگی کی شرح نوے فیصد سے اوپر ہے۔ اور اس میں بھی سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ اپر ہنزہ یعنی گوجال میں بعض گاﺅں ایسے بھی ہیں جہاں سو فی صد شرح خواندگی پائی جاتی ہے۔ یہ صرف روایتی پاکستانی شرح خواندگی نہیں بلکہ وہاں کا تعلیمی معیار بھی قابل ستائش ہے۔خاکسار کو پچھلے سال ماہِ اگست میں ایک یوتھ کیمپ کے سلسلے میں ہنزہ جانے کا اتفاق ہوا اس دس روزہ کیمپ میں تقریبا ًہنزہ کے ہر گاﺅں میں جانے اور وہاں کے معیار زندگی اور لوگوں کی رسم ورواج کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جس گاﺅں میں بھی ہماری ٹیم گئی وہاں اس گاﺅں سے متعلق پریزنٹیشن کا بندوبست کیا جاتا۔ اکثر گاﺅں کی شرح خواندگی نوے فیصد سے زائد بتائی گئی۔ وہاں کی خواتین بھی انتہائی بااختیار ہیں۔

ایکسپریس ٹربیون کے ایک مضمون کا اردو ترجمہ ’ہم سب‘ میں پڑھنے کو ملا۔ جس کے آخری پیراگراف کچھ یوں ہیں ’ ماروی کا مقصد مسگار کے بچوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ وہ الگ نہیں بلکہ ملک کے دھارے میں شمولیت کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔ ماروی اور ان کے رضاکار بچوں میں یہ اعتماد پیداکرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اتنے ہی اہم اور قابل ہیں جتنے کسی بڑے اور ترق یافتہ شہر کے بچے۔ مسگار کے بچوں کے لئے ماروی نے مواقعوں کی ایک دنیا کھول دی ہے۔ ان بچوں کو وہ پڑھارہی ہے ، جو شائد کوئی کتاب نہیں پڑھا سکتی۔ وہ بچوں کو تصور کرنا سکھا رہی ہے ،سوچنا سکھارہی ہے۔ مسگار سے آگے کی دنیا دکھا رہی ہے۔ ماروی شاید مسگار سے ایک دن چلی جائے گی لیکن ان بچوں کی دنیا ہمیشہ کے لئے بدل کر‘۔ اس مضمون نے وقار احمد ملک کے مضمون ’ماروی سومرو ہنزہ ہی میں کیوں پڑھاتی ہے‘؟ میں پیش کئے گئے مفروضات کی دھجیاں بکھیر دی ہیں جس میں موصوف نے ہنزہ میں بچوں کو پڑھاتے ہوئے روحانی خوشی کے حصول کا تذکرہ کیا تھا۔ ساتھ ہی ہنزہ کی شرح خواندگی اور بچوں میں موجود تجسس پر بھی سیر حاصل گفتگو کی تھی۔

اس خبر نے ہنزہ کے ہمارے دورے میں پیش کئے جانے والے حقائق پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں۔ جس میں نو ے فی صد سے زیادہ شرح خواندگی کے دعوے کئے گئے تھے۔سچ کیا ہے اور مفروضہ کیا اس میں فرق کرنے سے قاصر ہیں۔ البتہ جتنا ہنزہ سے متعلق میں جانتا ہوں حقیقت یوں ہے کہ کسی بیرونی بندے کو ہنزہ میں جاکر پڑھانے کی ضرورت نہیں۔ اگر ماروی سومرو کو معاشرے میں تعلیم کے ذریعے کوئی تبدیلی ہی لانی تھی تو سندھ کے کسی دورافتادہ گاﺅں میں جاکر یہ فریضہ نبھاتی۔ پنجاب یا بلوچستان میں جاکر بچوں کو پڑھاتی۔ اگر سرد پہاڑی خطوں ہی کا انتخا ب کرنا تھا تو ماروی بلتستان ، استور ، غذر یا چترال جاکر ہی اس کارخیر کا آغاز کرتی۔ لیکن خواہ مخواہ ہنزہ جہاں پہلے ہی حالات انتہائی قابل رشک ہیں، ماروی کا وہاں جانا ہمارے نوجوانوں کی ان ترجیحات کاتعین کرتی ہے کہ ہم بیگانی ذات اور بیگانی معاشرت کا شکار ہیں جو اپنی انا کی تسکین کے لئے کبھی صوفی ازم یا روحانیت میں پناہ ڈھونڈتے ہیں تو کبھی اس طرح دور پہاڑوں میں راہ فراراختیارکرتے ہیں۔

اگر ماروی سومرو کو تعلیم کے ذریعے تبدیلی کی اتنی ہی خواہش تھی تو سندھی ہاریوں کے بچوں کو اپنے خرچے پر کسی معیاری تعلیمی ادارے میں داخلہ کرواتی۔ لیکن ہماری ترجیحات الٹی سمت رواں ہیں جس کی وجہ سے ہم لاکھ کوشش کے باوجود تبدیلی نہیں لاتے۔
اپر ہنزہ گوجال کے گاﺅں ’گلمت ‘ میں ’بلبلک‘ نام سے موسیقی کا ایک ادارہ قائم ہےجہاں نوجوان طلبا وطالبات ایک ہی کلاس روم میں بیٹھ کر موسیقی اور آلات موسیقی سیکھ رہے ہیں۔ حالیہ چند مہینوں میں اسی ادارے کے تربیت یافتہ نوجوانوں کی پرفارمنس مختلف اخبارات اور دوسرے ذرائع سے سامنے آتی رہی ہیں۔ ہنزہ میں کہیں بھی دقیانوسی روایات یا خواتین کو چادر میں لپیٹ کر چاردیواری میں رکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ یہ ہنزہ ہی ہے جہاں ’شقم انٹرپرائزز‘ کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے ۔اس ادارے میں خواتین کولکڑی کا کام سکھایا جاتا ہے۔جہاں خواتین انتہائی نفاست سے لکڑی سے مختلف اشیا تیار کرتی ہیں۔کیا خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے اس سے بہتر کوئی مثال ملتی ہے؟

ماروی سومرو کی نیت پر ہمیں شک نہیں۔ البتہ ان کے طریقہ کار سے ہمیں اختلاف ہے۔ اس نے پڑھانے کے لئے ایک ایسے علاقے کا انتخاب کیا ہے۔ جہاں تحقیق کے مطابق تیس برس سے کم عمر افراد میں شرح خواندگی نوے فیصد ہے۔ان کی جتنی ضرورت اندرون سندھ، وسطی پنجاب یا بلوچستان میں ہے ہنزہ میں اتنی ضرورت نہیں۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ چترال کی طرح ہنزہ بھی اپنی تاریخ کے بدترین ’برین ڈرین ‘ کا شکار ہے۔ جہاں کا ہر تعلیم یافتہ شخص اسلام آباد ، کراچی یا بیرونی ممالک کیرئیر بنانے کو ترجیح دیتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ نوجوان نسل اپنے علاقوں کی جانب واپس جاکر نوجوانوں کی کردار سازی اور جدید علوم وفنون سے روشنا س کرانے میں اپنا کردار اداکریں۔ اگر برین ڈرین کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو کہیں ہمیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).