تلافی اب بھی ممکن ہے


(ڈاکٹر یونس  خان)۔

وہ بے بسی کی تصویر بنی میرے سامنے بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں سے جھلکتی مایوسی اور حزن و ملال کے سائے میرے آفس کا ماحول سوگوار کر رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا وہ اپنے آنسووں کو بڑے ضبط کے ساتھ چھلک جانے سے روک رہی ہے۔ اس کے ساتھ بیٹھا ہوا اس کا دس گیارہ سال کا بچہ اپنی ماں کی حالت دیکھ کر سر جھکائے بیٹھا ہوا تھا۔

آخر بڑی مشکل سے وہ گویا ہوئی، سر میرے پاوں تلے سے تو زمین نکل گئی ہے، میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میری ساری محنت یوں برباد ہو جائے گی اور مجھے یوں اپنی برسوں کی امیدیں خاک میں ملتی ہوئی دیکھنے کو ملیں گی۔ یہ بچہ میرے جینے کا جواز میری آرزووں کا مرکز اور میرے لئے کل کائنات ہے۔ میں نے اس کی تعلیم اور اس کے روشن مستقبل کے خوابوں کی تکمیل کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا رکھا ہے۔ اس کے والد کی وفات اور اپنوں کی بے اعتنائی کے بعد میں نے دن رات سلائی اور محنت مزدوری کر کے اپنی بساط سے بڑھ کر مہنگے پرائیویٹ اسکول میں داخل کروایا۔ مہنگی ٹیوشن لگوائی اور اس کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بیس بیس گھنٹے لگاتار کام کیا۔ میں خود ان پڑھ ہوں اور ٹھوکریں کھا رہی ہوں۔ میں نہیں چاہتی کہ یہ بھی میری طرح برباد ہو۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا کہہ کر وہ سسکیوں سے رونے لگ گئی۔

میرے لئے یہ لمحات کسی آزمائش سے کم نہیں تھے۔ میں نے بڑے بجھے دل سے انہیں کہا کہ سارے معاملات آپ کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہو گئے ہیں۔ یہ بچہ جس اسکول میں پڑھ رہا تھا وہاں یہ اپنی جماعت میں پانچویں پوزیشن پر ہے اور اس نے پچاسی فیصد نمبر حاصل کئے ہیں۔ لیکن ہمارے اسکول کے ایڈمشن ٹیسٹ کا نتیجہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ یہ بچہ اردو یا انگریزی کے حروف تہجی تک مکمل نہیں لکھ سکتا۔ املا کا عالم یہ ہے کہ کوئی دو حروفی لفظ تک نہیں لکھ سکتا، لکھنا تو دور کی بات کوئی لفظ پڑھ بھی نہیں سکتا۔ البتہ الفاظ کو دیکھ کر ویسے ہی لکھنے میں اس بچے کو کمال حاصل ہے چاہے یہ اپنے ہی لکھے ہوئے کو نہ پڑھ سکتا ہو، لیکن اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ اس میں مصوری اور صورت گری کی خداداد صلاحیت ہے جو کسی اسکول کا کمال نہیں۔ آپ کے ساتھ واردات یہ ہوئی ہے کہ اس کی کمزور بنیاد کے باوجود اسے ہر سال اگلے درجے میں کامیاب کیا جاتا رہا اور یوں اس کی اساسی کمزوریاں اور گہری ہوتی چلی گئیں کیونکہ اگلی جماعت کے اساتذہ اس کی پچھلی جماعتوں کا نصاب دوبارہ کبھی نہیں کرواسکتے۔ اور اسکول کی انتظامیہ نے اپنے رزلٹ کو مثالی ثابت کرنے کے لئے ہمیشہ اس کا شاندار نتیجہ مرتب کیا اور آپ کو ‘سب اچھا ہے’ کی رپورٹ پیش کی۔ رہا معاملہ ٹیوشن ٹیچر کا تو بہت کم ٹیوٹرز کے دل میں خوف خدا اور فرض شناسی کا احساس ہوتا ہے۔ زیادہ تر صرف بچوں کو اسکول سے ملنے والا ہوم ورک ہی کرواتے اور خوب دیر تک فضول بٹھائے رکھتے ہیں تا کہ والدین اس خوش گمانی میں رہیں کہ ان کا بچہ دیر تک تعلیم حاصل کر رہا ہے۔

اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ ماں معمولی ہی سہی لیکن پڑھی لکھی ہو اور اگر وہ ان پڑھ بھی ہے تو بچے کو پڑھانے کے لئے خود پڑھنا اور لکھنا سیکھ سکتی ہے۔ حصول علم و ہنر تو عمر کی قید سے ماورا ہے بلکہ پختہ عمر میں علم حاصل کرنا بجائے خود ایک اچھوتا اور حیرت انگیز تجربہ ہے اور شوق کی بنا پر انسان کے سیکھنے کی رفتار بھی کئی گنا تیز ہو جاتی ہے۔

وہ میری تمام گفتگو نہایت انہماک سے سن رہی تھی، بالآخر اس نے وہی سوال کیا جو تمام ایسے بچوں کے والدین کرتے ہیں، سر بتائیں اب میں کیسے اس کی تلافی کروں؟ دیکھیں محترمہ میں نے اس خاتون سے کہا، اس کی تلافی ہو سکتی ہے بشرطیکہ آپ اپنی غلطیوں کا اعادہ نہ کریں۔ کیونکہ کوئی بھی مسئلہ اسی سطح پر ہی حل کیا جا سکتا ہے جس سطح پر وہ پیدا ہوا ہے۔ آپ کے بچے کے تمام ابتدائی درجوں کا مختصر مدتی نصاب بنا کے میں دے دیتا ہوں۔ کتابیں بھی میں تجویز کر دیتا ہوں، آپ صرف یہ کریں کہ اپنی جان پہچان کے کسی سنجیدہ اور مخلص ٹیوٹر کو آمادہ کریں کہ وہ آپ کے بچے کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی پڑھائے۔ اس طرح گھر میں بھی آپ دونوں ماں بیٹا باہم مل کر محنت کریں گے تو صرف چھ ماہ میں یہ تمام ابتدائی مدارج عبور کر لیں گے۔ اس تمام عرصے میں آپ بچے کو اسکول نہیں بھیجیں۔ اس عبوری مدت کی تکمیل کے بعد آپ کا بیٹا تو اسکول جائے گا اور واپسی میں آپ کو بھی وہ سب کچھ سکھائے گا جو خود سیکھ کر آئے گا۔ یاد رکھئے کسی بھی مہارت کو سیکھنے کے لئے آپ کبھی زائد العمر نہیں ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).