الیکٹرانک میڈیا اور اینکران کرام


(فیصل بٹ)۔


مشرف دور کی یادگاروں میں سے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ اور بلدیاتی نظامِ حکومت تو قصہ پارینہ ہو چکے، ق لیگ ہرچند ہے کہ نہیں ہے کی صورت حال سے دوچار ہے، البتہ ’آزاد میڈیا‘ کا جو پودا انہوں نے لگایا تھا وہ خوب پھل پھول رہا ہے۔ نجی چینلوں کا ایک ہجوم ہے اور ان سے وابستہ اینکروں کی اک فوج۔

جانوروں میں خرگوش افزائشِ نسل کیلئے مشہور (یا بدنام) ہیں۔ راقم کے پاس اعداد و شمار تو نہیں لیکن غالب گمان یہی ہے کہ آزاد میڈیا کی آمد کے بعد ملک خداداد میں خرگوشوں اور اینکروں کی تعداد میں قریباً برابر اضافہ ہوا ہے۔ اس شعبے میں ترقی کی رفتار بھی قابلِ رشک ہے۔ جتنی دیر میں ایک بچہ نرسری سے پہلی جماعت میں جاتا ہے اس سے بھی کم عرصے میں یہ خواتین و حضرات ’سینئر‘ ہو جاتے ہیں۔

’پابند میڈیا‘ میں اینکر کی جگہ ’میزبان‘ ہوا کرتے تھے۔ ہم میں سے جو عمر کی چار یا اس سے زائد دہائیاں دیکھ چکے ہیں انہیں شائد لئیق احمد یاد ہوں گے جن کے لہجے کی شائستگی، الفاظ کے چناو اور ادائیگی، اور موضوع پر گرفت دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ان کی بنیادی تربیت سائنس و انجینئرنگ میں تھی، صداکاری میں نہیں۔ لیکن وہ پابندیوں کا زمانہ تھا۔ آج کی آزاد فضا میں اینکری کے لئے اہلیت، قابلیت اور ذاتی ساکھ کا معیار وہی ہے جو اس ملک میں حکمرانی کے لئے ہے۔

ہمارا ملک چونکہ بیشمار مسائل سے دوچار ہے اس لئے اینکران قابلِ فہم طور پر ملکی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں، خاص طور پر داخلی مسائل کو۔ خارجی مسائل پر تقریباً تمام اینکران کا اجماع ہے کہ اس کی بنیادی وجہ ایک کل وقتی وزیر خارجہ کا نہ ہونا ہے۔

اگرچہ فی کس مسائل بلوچستان میں سب سے زیادہ ہیں لیکن اینکران کی توجہ کا مرکز زیادہ تر وسطی و بالائی پنجاب اور سندھ کے شہری علاقے رہتے ہیں۔ NFC ایوارڈ کی طرح اینکران کی توجہ کا بنیادی پیمانہ بھی گویا آبادی ہے (اگرچہ کچھ حاسدین کے نزدیک پیمانہ ان علاقوں میں لگے وہ میٹر ہیں جن سے ریٹنگ ماپی جاتی ہے)۔

یوں تو اینکرانِ کرام کو اقتصادی، معاشی، عمرانی، دفاعی، قانونی، مذہبی و دیگر امور پر مکمل دسترس حاصل ہے لیکن سیاست ان کا خاص موضوع ہے۔ دیگر شعبوں میں بھی ماہرانہ رائے دیتے وقت عموماً تان سیاست اور سیاستدانوں پر ہی توڑتے ہیں۔

دن رات ’روایتی‘ سیاستدانوں اور ’بوسیدہ‘ نظام پر سنگ باری کی وجوہ میں ایک تو بلا شبہ سیاستدانوں کی ’آ بیل مجھے مار‘ (یاآ اینکر مجھے لتاڑ) والی حرکات و سکنات ہیں لیکن ایک وجہ شاید ریٹنگ کے لئے خود کو ’نڈر اور بیباک‘ ثابت کرنے کی مجبوری بھی ہے جو حکمرانوں پر ’بے رحم تنقید‘ سے ہی ممکن ہے۔ البتہ طاقت کے اصل مراکز پر تنقید میں احتیاط کی جاتی ہے کیونکہ جوابی گھونسہ مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس کرپشن پر سیاستدانوں کو پھانسی یا کم از کم الٹا لٹکا دینے کا مطالبہ ہوتا ہے اسی نوعیت کی کرپشن پر جب کچھ حضرات کو جبری ریٹائر کیا گیا تو نہ صرف تنقید سے گریز کیا گیا بلکہ باقاعدہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے گئے (یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ طاقت کے اصل مراکز کا احترام تو دائمی ہے لیکن ان سے وابستہ افراد پر تنقید سے احتراز کی گارنٹی ان کی مدت ملازمت سے مشروط ہے۔ ایامِ پنشن شروع ہونے کے بعد بغاوت وغیرہ کے مقدمات سے تو بچا جا سکتا ہے، اینکرانِ کرام کے غضب سے نہیں)۔

اینکران کے کم و بیش روزانہ کئے جانے والے انکشافات کی بنیاد یا تو ’ذرائع‘ ہوتے ہیں یا شواہد۔ ان ذرائع کی پہنچ اعلیٰ ترین سطح تک ہے، ’دو بڑوں‘کی ان ملاقاتوں تک بھی جن میں کسی تیسرے فریق کی شرکت کی گنجائش نہیں ہوتی۔ یعنی’تم مرے پاس ہوتے ہو گویا،جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا‘والی صورتِ حال ہے۔ البتہ ذرائع کا بنیادی کام غالباً صرف خبر فراہم کرنا ہے۔ خبر کی صحت نہ ان کی اور نہ ہی بظاہر اینکر کی ذمہ داری ہے۔

شواہد کے حوالے سے کچھ اینکر خصوصی شہرت رکھتے ہیں اور اس ضمن میں عوام النّاس سے گاہے بگاہے اپیلیں بھی کرتے رہتے ہیں البتہ ان شواہد کو، جن کا تعلق چاہے ٹائروں کی مرمت سے ہو یا دشمن ملک کی مدد سے، ملکی و غیر ملکی عدالتوں میں پیش کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔

اعداد و شمار میں بڑے ہندسوں پر اینکران کی خاص دلچسپی ہے۔ مقامِ جلسہ کے حدود اربعہ سے قطع نظر ان کے محبوب سیاستدان کے جلسے میں شرکا ہمیشہ لاکھوں میں ہوتے ہیں اور ان کے معتوب سیاستدان کی کرپشن ہمیشہ اربوں میں۔

موجودہ دور کی بلند آہنگ اور جارحانہ اینکری پنجابی فلم ’مولا جٹ‘ کی یاد دلاتی ہے جس نے بزنس بھی خوب کیا اور کچھ عرصے کے لئے پنجابی فلموں کو ایک نئی جہت بھی دی۔ یہ اور بات ہے کہ مار دھاڑ سے بھرپور یہ جہت بالآخر فلمی صنعت کو ہی لے ڈوبی۔ اب دیکھئے برسوں کی کاوشوں کے بعد حاصل کی گئی صحافت کی آزادی کو اینکری کہاں پہنچاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).