جنسی زیادتی کے مسئلے کا حل کیا ہے؟


حال ہی میں سلیم ملک صاحب نے ’ہم سب‘ پر ایک بہت اہم مسئلے کے بارے میں بہت اچھے انداز میں نشاندہی کی۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ جب مسائل کی نشاندہی کی جائے گی اور ان کے بارے میں بات چیت کی جائے گی جب ہی تو ان کا حل نکلے گا۔ اس سے قبل ’اڈاری‘ میں بھی اس مسئلے کی نشاندہی کی گئی مگر یہ اور بات کہ اس مسئلے کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ سوتیلے باپ کے نام کے ساتھ مزید ایک کلنک کا ٹیکا جوڑ دیا گیا۔

ڈرامے کے درمیان میں جب ماں قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے تو میں نے ٹوئیٹر پر سوال کیا کہ کیا یہ حل ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے تو روشانے صاحبہ نے کہا کہ نہیں آپ آگے دیکھئے، حل آگے بتایا جائے گا اور آگے جا کر حل پھر اسی عدالتی نظام تک جا پہنچا جہاں حقیقی زندگی میں فیصلے برسوں کا انتظار لیتے ہیں۔

سب سے پہلے تو میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ ہمارے ملک میں اس مسئلے کے اعداد و شمار کیا ہیں اور یہ مسئلہ کس معاشی طبقے میں زیادہ ہے؟ میں بطور ایک عام شہری کے اس بات سے واقف نہیں ہوں۔ اگر یہ ناخواندہ اور غیر تعلیم یافتہ طبقے میں زیادہ ہے تو سیدھی سی بات یہ ہے کی جب غربا کو سرے سے تعلیم ہی میسر نہیں تو جنسی تعلیم کے موضوع پر ان میں آگہی کیسے پیدا کی جا سکتی ہے؟ سزا دینے سے پہلے ایک انسان میں اس جرم اور برائی سے متعلق آگہی پیدا کرنے کی ضرورت بھی تو ہے نا۔ ایک گھٹے ہوئے معاشرے میں جس میں صحت، تعلیم اور اس سے اگلے درجے پر ایک اور اہم پہلو جو کہ تفریح ہے، اس کا ہی کوئی طریقہ میسر نہیں تو ذہنی بیماریاں کیسے نہیں بڑھیں گی۔ میں ملک کے دارالحکومت کی باسی ہوں اور یہاں بھی صحت مند تفریح کے بے حد کم مواقع ہیں۔ اگر میں شام کو نزدیک واقع پبلک پارک میں بھی جاتی ہوں تو زیادہ تر وقت لوگوں کے گھریلو ملازمین کام سے فراغت پا کر بینچوں پر بیٹھ کر واک کرتی خواتین کو دیکھ کر حظ اٹھا رہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے لئے اس کے علاوہ کوئی تفریح میسر ہی نہیں ہے اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق یہی ایک تفریح ہے۔ پہلے ملک میں اکثر مقامات پر میلے وغیرہ ہو جاتے تھے مگر اب تو ان پر بھی سوالات زیادہ اٹھائے جاتے ہیں اور ان کے تحفظ کے لئے کم اقدامات کئے جاتے ہیں۔

اچھا ایک اور بات کہ درست ہے کہ چند این جی اوز جنسی زیادتی کے بارے میں مدد فراہم کرنے کے لئے بڑے شہروں میں کام کر رہی ہیں، جن کے طریقہ کار سے میں واقف نہیں۔ مگر ان سے ہٹ کر عام سطح پر اس مسئلے کی نشاندہی ہو جانے کی صورت میں اس کے حل کے لئے کیا سہولیات میسر ہیں؟ کیا کوئی ایسے ری ہیب سینٹرز ہیں جہاں ایسے نوعمر لڑکوں کو بھیجا جا سکے جو اس فعل اور ذہنی بیماری کی طرف مائل ہو رہے ہیں؟ اگر مقدمہ چلا بھی لیا جائے اور کچھ ثابت بھی ہو جائے تو کیا جیل میں دیگر قیدیوں کے ساتھ اس جرم کے مرتکب لڑکے کو بند کر دینا اس کے اپنے ذہن کی اصلاح کے لئے درست ہے؟

دوسرے درجے پر ان بچوں کی بات کرتے ہیں جو اس ہوس کا نشانہ بنتے ہیں۔ چلیں فرض کرتے ہیں کہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقے میں سے کسی فرد کی بچی کے ساتھ خدانخواستہ یہ حادثہ رونما ہو جاتا ہے اور ہم اسے دنیا کے سامنے لے آتے ہیں تو بتائیے کہ وہ معاشرہ جو ایک موٹی ناک یا چھوٹے قد کی بنا پر بچیوں کا رشتہ ٹھکرا دیتا ہے، جو طلاق یافتہ عورت کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیتا وہ ایسی بچی کے ساتھ کس طرح سے پیش آئے گا؟ ترقی یافتہ ممالک میں اس استحصال سے بچ نکلنے والے بچوں کو سروائیورز کہا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں تو ایسی بچی بڑا ہونے پر ایک لٹی ہوئی عزت والی لڑکی کہلائے گی نا۔ اس صورت میں اس کے گھر والوں کے پاس اس کے علاوہ کیا چارہ ہے کہ وہ خاموشی سے اس بات کی پردہ پوشی کر دیں؟
اچھا اب ایک ایسی صورت تصور کریں جس میں سگا باپ ہی ایسی قبیح حرکت کرے، تو ترقی یافتہ ممالک میں ایسے بچے فوسٹر ہومز میں یا بہتر گھروں میں بھیج دیے جاتے ہیں جہاں وہ اس استحصال سے بچ سکیں۔ ہمارے ہاں لے دے کے ایک دارلامان ہے جس میں خواتین کی زندگی کی جو معاشی اور معاشرتی سطح ہے اس سے سب واقف ہیں۔

دیکھئے جب بھی میں کسی معاشرتی مسئلے بارے میں سوچنے کی کوشش کرتی ہوں، اس مسئلے کا حل فوری انصاف اور تعلیم کی فراہمی پر آ کر رک سا جاتا ہے۔ اگر فوری انصاف کی فراہمی ہو تو بہت سے ادارے درست طور پر کام کریں۔ پھر ہم قانون میں ایسی مزید شقیں ڈالنے کا بھی مطالبہ کر سکتے ہیں جو ایسے لوگوں کو مزید سہولیات دینے کا باعث بنیں جو اس زیادتی کا نشانہ بنے ہیں۔ دوسرے تعلیم کی ہر فرد تک رسائی از حد ضروری ہے، جبھی ہم جنسی مسائل کے بارے میں تعلیم ہر بچے تک پہنچا سکتے ہیں تاکہ نہ تو وہ کسی کو اس زیادتی کا نشانہ بنائے اور نہ ہی نشانہ بنے۔ سزا دینے کے علاوہ جڑ سے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اگر ذہنی گھٹن مزید بڑھتی جائے گی اور جڑ سے چیزیں درست نہیں ہوں گی تو ظاہری سطح پر تو لوگ ایسے ہی حل پیش کریں گے کہ باپ اور بیٹی ایک کمرے میں ہی نہ بیٹھیں یا پندرہ سال کے لڑکے یا لڑکی کی شادی کر دی جائے۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim