خارجہ پالیسی کے چیلنجز


پاکستان خارجہ پالیسی کے اعتبار سے اپنی جغرافیائی موجودگی کی بنا پر اپنے قیام سے لے کر آج تک نسبتاً نازک کیفیت میں رہا ہے۔ پھر پے در پے کے مارشل لاﺅں نے سیاسی عمل اور قیادت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا وہیں پر ملک کی خارجہ حکمت عملی کو خطرات سے قریب سے قریب تر کر دیا۔ داخلی تقسیم کے سبب بین الاقوامی معاملات اور بالخصوص عالم اسلام سے جڑے معاملات میں قدم پھونک پھونک کر رکھنا قومی ترجیحات کو حاصل کرنے کے واسطے نہایت اہم ہے اور اس اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے شام کے معاملات سے پاکستان کو دور رکھا حالانکہ موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے حکومتی مخالفین نے یہ تصور بہت مضبوط کرنے کی کوشش کی کہ حکومت کسی لمحے بھی شام کی آگ میں پاکستان کی انگلیاں جلا سکتی ہے۔

شام میں تازہ ترین افسوسناک صورتحال نے پاکستان میں بجا طور پر تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ پاکستان ایک بڑی طاقت کے تابع رہتے ہوئے خارجہ پالیسی وضع کرنے کی حکمت عملی واضح کرنے کی بجائے اپنے مفادات کا تعین کرتے ہوئے معاملات کی طرف بڑھنے کی پالیسی اختیار کر چکا ہے۔ مثلاً پاکستان یمن تنازع کے بھڑکتے شعلوں کے وقت اس سے کنارہ کش رہنے کی غرض سے صورتحال کو گومگو کی کیفیت میں رکھتا چلا گیا مگرجب یمن میں فوج بھیجنے کے سوال سے بات آگے نکل گئی تو پاکستان سعودی اتحاد کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ خیال رہے کہ اس سعودی اتحاد کو امریکی حمایت بھی حاصل ہے۔ مگر پاکستان کی نظریں امریکی حمایت کی بجائے مشرق وسطیٰ میں اپنی موثر موجودگی اور اہمیت کو کسی تنازع میں الجھے بنا برقرار رکھنا تھا جو پاکستان نے خوش اسلوبی سے حاصل کر لیا۔

پاکستان کی یمن کے حوالے سے کامیاب حکمت عملی کو مشرق وسطیٰ میں جاری بے چینی میں ممکنہ پاکستانی کردار کو سعودی اتحاد میں رہتے ہوئے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مشرقی وسطیٰ میں لگی آگ کو بجھانے کے واسطے تو پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے مگر کسی کے ساتھ ستی ہونے کی خواہش بہرحال پاکستان میں موجود نہیں ہیں۔ داعش کا خطرہ عالم اسلام میں ایک اجتماعی خطرے کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب ہو ، ایران یا پاکستان سب کی نظر میں داعش ایک عفریت ہے اور عفریت کے طور پر پنپ رہا ہے اور اس عفریت کا قلع قمع کر دینا از حد لازم ہے۔پاکستان بھی اسی وجہ سے سعودی فوجی اتحاد میں شامل ہوا ہے۔ کچھ دن قبل اس حوالے سے جب پاکستان نے وضاحت کی اور شمولیت کا دو ٹوک انداز میں ذکر کیا تو ساتھ ہی اس بات کی بھی وضاحت کر دی کہ ایران سے تعلقات کو خراب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

اس بیان کو صرف ایران کی حد تک محدود کر لینا درست نہیں ہو گا بلکہ اس کا واضح پیغام یہ ہے کہ جن معاملات میں بھی پاکستان کی سوچ فوجی اتحاد سے جداگانہ ہو گی ان معاملات میں اس اتحاد میں شامل ہونے کے باوجود پاکستان خود مختار ہو گا کہ جو چاہے کرے۔ جیسے یمن کے معاملے میں پاکستان کا طرز عمل تھا۔ ویسے بھی پاکستان گزشتہ کچھ عرصے سے افغانستان کے معاملات کے حوالے سے امریکہ سے بہت شاکی رہا ہے۔ جہاں وہ امریکی حمایت یافتہ سعودی اتحاد میں شامل ہوا ہے وہیں پر افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ماسکو کانفرنس میں بھی جا رہا ہے۔

ماسکو کانفرنس اس حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں پاکستان اور روس کے علاوہ چین اور ایران بھی شامل ہو رہے ہیں اور نائن الیون کے بعد یہ کانفرنس افغان طالبان کے حوالے سے سب سے مثبت خیالات ظاہر کرنیوالی کانفرنس توقع کی جا رہی ہے۔ اس میں سب سے دلچسپ امر یہ ہے کہ ایران بھی اس کی حمایت کر رہا ہے جس کے حوالے سے ماضی میں یہ خیال بہت مضبوط تھا کہ بوجوہ وہ افغان طالبان کا سب سے بڑا مخالف ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو امریکہ کے لئے اس خطے میں ایک نیا چیلنج در پیش ہو گا کیونکہ پاکستان یا ایران کو تو دھمکیوں سے ڈرائے جانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ مگر چین اور روس کو تو بہرحال پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کی بات نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی وہاں کوئی آمر ہے جو لمحوں میں ڈھیر ہو جائے۔ مشرق وسطیٰ کے معاملات میں پاکستان کچھ حوالوں سے امریکہ کے ساتھ ہے۔ جبکہ ماسکو کانفرنس یہ واضح پیغام دیتی ہے کہ افغانستان کے معاملات میں پاکستان کی صریحاً پوزیشن مختلف بنتی چلی جا رہی ہے۔

پاکستان اس وقت پہلے کی نسبت نسبتاً آزاد خارجہ پالیسی اختیار کر رہا ہے اور فیصلے دستیاب وسائل اور اپنے مفادات کے تحت کر رہا ہے۔ انہی دنوں میں چین کے صدر نے امریکہ میں امریکی صدر سے ملاقات کی ہے اور دونوں کے درمیان مشرق وسطیٰ اور افغانستان کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی ہے۔ اس گفتگو کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں اس کا باریک بینی سے تجزیہ کرنا پاکستان کے لئے بہت کارآمد ہو گا۔ ماضی میں امریکہ نے چین سے اپنے تعلقات اختلافات کے باوجود سابقہ سوویت یونین کو سٹرٹیجک بنیادوں پر تنہا کرنے کی واسطے قائم کیے اور یہ شراکت داری 25 سال کچھ لو ، کچھ دو کی بنیاد پر چلتی رہی۔ اب ٹرمپ انتظامیہ کے چین سے کیا معاملات بنتے ہیں اس کا تجزیہ لازم کیونکہ یہ ہمارے واسطے بھی کم اہم نہیں۔ سی پیک کے بعد یہ معاملہ مزید اہم ہو گیا ہے۔ اسی واسطے وزیر اعظم نواز شریف کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس معاملے کو سی پیک کی مانند براہ راست دیکھیں۔ جب تک انہوں نے از خود مداخلت نہیں کی تھی سی پیک متنازع بنتا چلا جا رہا تھا۔ ان کی ذاتی مداخلت اکسیر ثابت ہوئی۔

یمن تنازع میں بھی پہلے عرب عجم کا تنازع جیسے بیانات دے کر بعض ذمہ داروں کی جانب سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ مگر پھر وزیر اعظم کی ہدایت پر خواجہ آصف کی پارلیمنٹ میں تقریر نے صورتحال کو سنبھال لیا۔ خارجہ معاملات میں بھی اسی کی ضرورت ہے ۔ راجہ ظفر الحق ، چوہدری نثار ، اسحاق ڈار اور اقبال جھگڑا کو خارجہ معاملات میں ماضی میں بھی میاں نوازشریف کی سیاسی ٹیم کے طور پر کام کا تجربہ ہے اور اب بھی سرتاج عزیز کے ہمراہ اسی سیاسی ٹیم کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ چوہدری نثار ویسے بھی پاکستانیوں کے غیر قانونی ڈی پورٹ کے معاملہ پر قابل قدر اقدامات کر چکے ہیں جو درحقیقت وزارت خارجہ کی ذمہ داری تھی۔ خیال رہے کہ سیاسی ٹیم کی بات ان حالات میں کر رہا ہوں جب سشما سوراج بیان دے رہی ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بغیر ویٹو کے مستقل رکنیت نہیں لے گا۔ نظریں ہر طرف ہماری گڑی ہونی چاہیے کیونکہ دشمن موقع کی تاک میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).