بیانیہ اور اظہاریہ میں تضاد


جب سے ہم دہشت گردی کے خلاف ہوئے ہیں ہمیں خود سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کس کے خلاف ہیں اور کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کشمیر میں ہم جن کی فتح کے لئے دعا گو ہوتے ہیں ان کو ہم کابل کے تخت پر بھی بٹھانا چاہتے ہیں لیکن لاہور میں ان کا داخلہ بند ہے۔ جن کو کوئٹہ میں شوریٰ بینھم کے لئے رکھا ہے ان کے ساتھ اسلام آباد میں بات چیت بند ہے مگر قطر میں دعا سلام جاری ہے۔ جن اشتہاریوں کی مخبری کے وعدے پر ہم نے تھانیدار سے رعایت لے رکھی تھی اس پر یہ شعر صادق آتا ہے ۔

ٰ شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی

مخبری میں تاخیر پر ہم ہی پر شکوک و شبہات کا اظہار ہوا اور ہم ہیں کہ ساٹھ ہزار اپنے بے گناہ لوگوں کو مرواکر بھی ٹھہرے گنہگار۔ہمارے بیانیہ اور اظہاریہ میں تضاد کوئی نئی بات نہیں۔ نہ صرف ہماری پریس کانفرنسوں میں بنائی گئی فوٹیج اور انتخابی جلسوں اور ریلیوں میں اپنے حقیقی دوستوں کے کندھوں سے کندھے ملاکر اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بنائی گئی تصاویراخباروں میں چھپنے والے اشتہارات سے میل نہیں کھاتی ہیں بلکہ ہماری پھرتیاں اور چستیاں بھی برملا بتاتی ہیں کہ ہم اپنے قول کے کتنے سچے ہیں۔

شور ہوا کہ ایک بیانیے کی ضرورت پڑی ہے تاکہ پوری قوم ایک نقطہ پر اکٹھی ہو سکے۔ ابھی تک سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہ یہ بیانیہ ہوگا کیا اور کیسا ہوگا تو مرشدی فرنود عالم نے سمجھا دیا کہ’ بیانیہ کوئی آئین سازی کا عمل نہیں ہوتا،یہ قرار داد نہیں ہوتی کہ چوراہے پہ کھڑے ہوکر رائے لی جائے اور یہ اعلامیہ بھی نہیں ہوتا کہ چیخ چلا کر جاری کیا جائے‘۔ اسی سانس میں محترم فرنود عالم نے یہ بھی کہہ دیا کہ’جب یہ کہا جاتا ہے کہ بیانیے کی تبدیلی میں ریاست کا کرداراہم ہوتا ہے، تو اس سے مراد یہ قطعاً نہیں ہوتی کہ پارلیمنٹ اس کی کوئی دستاویز مرتب کرے اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اسے منظور کروا کر نافذ کردے‘۔ سوال ذہن میں آیا کہ پھر یہ نافذ کیسے ہوگا توہ استاد فرنود نے صاف کہہ دیا کہ بیانیہ نافذ نہیں ہوتا، بیانیہ رائج ہوتا ہے۔ یہ سمت کی تبدیلی کے کچھ اشارے ہوتے ہیں جو رویے سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس سے بحث جنم لیتی ہے اور اجتماعی شعور خودکار طریقے سے ایک ترتیب و تنظیم میں آ رہا ہوتا ہے۔ ترتیب وتنظیم کا یہ دورانیہ خود طے کر رہا ہوتا ہے کہ کتنا بولنا ہے اور کتنا آگے جانا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ ترویج پانے والے اسی بیانیے کے تحت بغیر کسی مزاحمت کے پالیسی تشکیل پانے لگتی ہے۔

فرنود عالم کے اس کالم کو پڑ ھنے کے بعد ہم نے بھی بیانیے کی تلاش شروع کردی کہ نظر نہ آنے والا ، نہ دیکھا جانے والا اور نہ پڑھا نا جانے والا ایسا سلیمانی ٹوپی پہنے بیانیہ کہاں مل سکتا ہے ۔ دھماکوں کا شکار ہوتے ، مرتے تڑپتے اگر بچ بھی گئے ہیں تو کسی عزیز رشتے دار کے مفارقت کا نہیں تو کم از کم اپنے ہی زخم کا داغ بدن پر سجائے عام لوگ کسی بیانیے سے تو واقف نہیں اور نہ ہی کسی بیانیے کی تشکیل وغیرہ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لوگ ایک کے بعد بعد دوسرے حادثہ کے ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور اپنے لئے صرف دعا ہی مانگتے ہیں کہ وہ بچ جائیں۔ لوگ حیرت کا اظہار کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اگر یہ سب ایک بیانیے کے نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے تو بیانیہ کیوں نہیں بنایا جاتا ہمارے ملک نے ایٹم بم بنا لیا ہے تو کیا یہ کوئی ایٹم بم سے بھی مہنگی یا مشکل چیز ہے۔ کیا اس کے بنانے والے سائنس دان ہمارے ملک میں نہیں ہیں۔ اگر یہاں بیانیہ جیسی کمیاب شے نہیں پائی جاتی تو کسی اور ملک سے کیوں نہیں منگوائی جاتی جیسے بہت ساری چیزیں درآمد کی جاتی ہیں۔ سب سے بڑا سوال جو پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا اس بیانیہ کے بعد یہاں واقعی امن اور سکون واپس آسکے گا؟

ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں اپنے راہنماوں کے بیانات کی موجودگی میں کسی بیانیے کی ضرورت ہی محسوس ہی نہیں کرتیں۔ سیاست دانوں کے خیال میں اگر کسی بیانیے سے ان کے ووٹ بنک میں اضافہ نہیں ہوسکتا تو اس پر وقت ضائع کرنے کی بھی چنداں ضرورت نہیں۔ اگرکسی بیانیے سے کسی کو کوئی سیاسی فائدہ پہنچ سکتا تو آج ینپ ، کمیونسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی اس ملک میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں ہوتیں نہ کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ،کیونکہ بیانیے کی جنگ صرف وہی لڑتے رہے ہیں۔ ہمارا سیاسی بیان ہمیشہ سے لیکن، اگر ، مگر، اگرچہ ،چونکہ، چنانچہ پر منتج ہوتا ہے تو بیانیہ میں بھی یہ الفاظ کیسے نہیں ہوسکتے۔ سیاست دان سمجھتے ہیں کہ کسی معاملے پر کسی کے دو ٹوک موقف ہونے سے نہ ہونا زیادہ بہتر ہے کیونکہ بدلتے موسم میں موقف کو بدلنا زیادہ مشکل کام ہے۔ کسی بیانیے کے لئے زیادہ ترد کریں تو اشاروں کنایوں میں سمجھا دیا جاتا ہے کہ جب بیانیہ آئے گا تو دیکھ لیں گے۔

صحافی ، مدیر، کالم نگار اور ٹیلی ویژن کے کیمروں کے سامنے بھاشن دینے والے اینکر پرسن سب یہ تو کہتے ہیں کہ بیانیے کے بغیر ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ وہ بیانیہ آئے گا کہاں سے۔ ہمارے سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے اساتذہ بھی اس بات سے متفق ہیں کہ ایک بیانیہ ہونا چاہئے لیکن بیانیہ کیا ہواس پر متفق شاید ہی ہوں۔

بادی النظر میں ہم ایک ایسے بیانیے کی طرف دیکھ رہے ہیں جو ہم سب کو متفق کردے کہ دنیا میں امن و امان کے قیام اور نوع انسانی کی بقا کے لئے ہم عالمی برادری کے ساتھ ہیں۔ ہم ہر طرح کی تفریق اور تعصب کے خلاف ہیں اور تمام انسانوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہمارا تکفیری فتووں اور قتال و جدال کے پراپگنڈے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اپنے ملک کے آئین و قانون کا احترام کرتے ہیں اور کسی بھی انسان کے خون کے ناحق بہانے کو نہ صرف جرم سمجھتے ہیں بلکہ ایسا کرنے والے کو پورے انسانی معاشرے کا مجرم بھی سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے تمام لوگ بلا تفریق مذہب ، نسل ، رنگ اور سماجی حیثیت کے برابر کے شہری ہیں۔ ریاست اور اس کے ادارے کسی مذہب یا فرقے سے امتیازی سلوک روا نہیں رکھتے۔

دوسری طرف جب ہم پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں سفید پوش طبقے کے لئے بنی مارکیٹوں میں کسی خاص فرقے کے داخلے کے خلاف آویزاں تختیاں دیکھتے ہیں اور ممتاز قادری کے جنازے میں لاکھوں کے اجتماع کے بعد ان کے نام پر بنتے مزار کے گنبد دیکھتے ہیں ، اسلام آباد کی سڑکوں پر کالعدم تنظیموں کے راہنماوں کے اجتماع کو دیکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیانیہ کچھ اور ہے اور اظہاریہ کچھ اور۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan