خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے


جمعیت علمائے اسلام کا صد سالہ اجتماع گزر چکا۔ ہجوم کے لحاظ سے یہ ایک کامیاب شو تھا۔ دنیا کو پیغام دیا گیا کہ اسلام پسند امن والے لوگ ہیں۔ جمعیت کے سٹیج پہ اکثریت طبقوں کی نمائندگی موجود تھی۔ مگر کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ ہم چاہتے ہیں کہ انہیں زیر بحث لانا چاہیے اور خامیوں کو دور کرنا چاہیے۔

سب سے پہلے جس چیز کی کمی محسوس کی گئی وہ میڈیا پالیسی تھی چلو الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا تو دجالی قوتوں کا آلہ کار ٹھہرا مگر سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی انتہا درجے کی نااہلی دکھائی گئی۔ سوشل میڈیا کے احباب کون تھے مجھے علم نہیں؟ مگر جماعت کے پیج سے بھی کوئی خاطر خواہ چیز سامنے نہیں آئی، نہ کوئی ڈھنگ کی ویڈیو اور نہ کوئی ڈھنگ کی تصویر۔

اس موقع پہ جمعیت کے ان لکھنے والوں کو بھی نظر انداز کیا گیا جو ہر موقع پہ جماعت کا دفاع کرتے ہیں۔ جن لوگوں کا ایک کام اور نام تھا وہ کھڈے لائن لگے تھے انہیں پوچھا تک نہیں گیا۔ چلیں چاپلوسی میں تو بندہ جی جی کر لیتا ہے مگر لکھنا ہر ایک کا فن نہیں۔ یہ کمال خدا کسی کسی کو دیتا ہے۔ سوشل میڈیا کے بڑے نام کیوں نہیں بلائے گئے مجھے نہیں علم ؟ جماعتی معاملہ جو بھی ہو مگر سوشل میڈیا پہ انکی کمی محسوس کی گئی۔ بے لوث دفاع کرنے والوں کو عزت بھی اگر جماعت نہیں دے سکتی تو سوائے افسوس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے ؟ جب بے لوث لکھنے والوں کو عزت نہیں دی جائے گی تو نتیجہ یہی نکلے گا جو نکلا ہے۔

دوسری جس چیز کی کمی تھی وہ انتظامات تھے۔ انتظامات بھی انتہائی ناقص تھے ۔گیٹ ایک ہی تھا۔ کتابوں کے سٹالز کے لیے بھی ایک جگہ نہیں تھی۔ ایک جگہ کتابیں لگی تھیں۔ درمیان میں واش رومز اور پھر دوسری طرف کتابوں کا سٹال۔ ہم قطب الدین بھائی کا سٹال ڈھونڈتے ڈھونڈتے دو مرتبہ کیچڑ میں پھسلے۔ معلوم نہیں یہ کس ذہن کی اختراع تھی کتابوں کے درمیان لیٹرینیں بنائی جائیں اور پھر جس وقت ہم موجود تھے وہاں پانی بھی بند تھا ۔سٹیج سے بار بار پکارا جا رہا تھا کہ لیٹرینوں میں پانی نہیں ہے۔ پانی کا بندوبست کیا جائے پانی کا بندوبست کیا جائے۔ اب یہ مذاق نہیں تو کیا ہے ؟

پھر اجتماع بھی سڑک کیساتھ رکھا گیا۔ اضاخیل تا نوشہرہ دو اڑھائی گھنٹے آسانی سے لگ جاتے ہیں ،لوگ گالیاں دے رہے تھے۔ ٹریفک پالیسی بھی نہیں بنائی گئی۔ راستہ بھی ایک اور پھر روڈ کیساتھ اجتماع کرنا تین دن لوگوں کی تکلیف کا باعث تھا۔

تیسری اور اہم بات یہ تھی سو سالہ کانفرنس کا جشن منایا جا رہا ہے کوئی کتاب نہیں لکھی گئی کوئی ڈاکو منٹری تک نہیں بنائی گئی۔ سو سالہ کارکردگی پہ بات ہوتی، کارنامے دکھائے جاتے ،کتابیں سامنے لائی جاتیں مگر ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔

ہم لٹریچر دیکھنے گئے وہاں جو کتابیں دیکھیں ان پہ تبصرہ وقت کا زیاں ہے۔ عبدالغفور حیدری پہ بھی کتاب شائع کی گئی، مولانا فضل الرحمن پہ کتابیں شائع کی گئیں۔ ارے بھائی کیا ضرورت ان پہ کتابیں شائع کرنے کی۔ ان لوگوں کا فیصلہ وقت کرے گا کوئی ڈھنگ کا لٹریچر ہی متعارف کروا دیتے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ شاید یہاں آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ چاپلوسی کی جائے اور لکھنے والے کمال یکسوئی کیساتھ اپنی صلاحیتیں چاپلوسی کے فن میں استعمال کر رہے ہیں۔جن لوگوں کا کتاب سے تعارف نہ ہو، جس جماعت کا کوئی خاص لٹریچر نہ ہو وہاں یہی ہوتا ہے جو ہو رہا ہے،

میں پوری دیوبندیت کی مثال تو نہیں دیتا مگر اس وقت جمعیت کی مثال ضرور دوں گا کہ آج بھی جمعیت میں کئی طبقے موجود ہیں جو اپنی اپنی لائن پہ چل رہے ہیں۔ مولانا شیرانی کے چاہنے والوں کو دیکھیں وہ امامنا سے باہر نہیں نکلتے ،ان کی سوچ بالکل الگ ہے جس کا اظہار سوشل میڈیا پہ وقتا فوقتا ہوتا رہتا ہے۔ مولانا شیرانی کی اپنی حیثیت ہے لوگ ان کی ذات سے جڑے ہیں وہ بلوچستان کا بت ہیں۔ سندھ کی جمعیت قوم پرست ہے وہ اپنی قومیت سے باہر نہیں نکلتے ڈاکٹر خالد محمود سومرو کٹر قوم پرست تھے۔

وفاق کی جمعیت میں مولانا کے ارد گرد وہی لوگ ہیں جو خوشامدی ہیں۔ ان کا کام خوشامد کرنا ہے جو ذرا الگ سوچے تو اسے حافظ حسین احمد اور مفتی کفایت اللہ کی طرح کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے۔

سرحد کی جمعیت طالبانیت سے ہی باہر نہیں نکلی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اجتماع میں بھی بعض لوگ افغانستان کے جھنڈے لائے ۔آخر پالیسی کیا ہے ہمیں بھی سمجھایا جائے؟

سوشل میڈیا پہ دیکھیں تو بعض جمعیت کے دوست جمعیت کو سیکولر اور لبرل بنانے کے لیے طرح طرح کے دلائل تراشتے ہیں۔ کچھ مولانا کو سیاست دان ثابت کرتے ہیں۔ کچھ ملت اسلامیہ کا قائد بتاتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ آپس میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں مولانا نے بھی کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا شاید انکی کامیابی اسی میں ہے تبھی وہ اس طرف توجہ نہیں دیتے۔

جمعیت چاہتی کیا ہے یہ تو واضح ہونا چاہیے؟ جمعیت کا لٹریچر کیا ہے اس کا بھی تعین ہونا چاہیے ؟ جمعیت کے نمائندے کون کون ہیں اس کا بھی اعلان ہونا چاہیے؟

مولانا کی ذات تو ٹھیک ہے مگر مولانا کے بعد کیا ہو گا ؟ ایک نظم میں جماعت کو لایا جائے ایک راہ متعین کی جائے وقتی کامیابی کی بجائے آئندہ کا لائحہ عمل طے ہونا چاہیے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا صرف سیاست کر رہے ہیں اور اپنے پتے کامیابی سے کھیل رہے ہیں وہ جب چاہتے ہیں لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں۔ حالات سے مولانا اس وقت پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر جب خلا ہوتا ہے تو پھر دیگر لوگ جماعتیں توڑ دیتے ہیں۔

اب جب مولانا طاقت میں ہیں حالات بھی ان کے موافق ہیں تو ایک سوچ واضح کرنی چاہیے لٹریچر کے اعتبار سے بھی اور جماعتی نظم نسق کے حوالے سے بھی۔ امید ہے گالیاں دینے کی بجائے اس طرف توجہ دی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).