کھوتا سوچ ۔۔۔ اور دیگر سائنسی تحقیق ۔۔۔ مابعد نو آبادیاتی مشاہدات


یہ آزادی کے بعد کے برسوں کا ذکر ہے۔ ہماری جوانی شروع ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔۔۔۔

حضرت علامہ اقبال کا کلام ہمارے نوک زبان تھا۔ “اگر تو اپنی خودی نہ کھوتا۔۔۔”۔ ہمارے سوچی سمجھے رائے تھی کہ قبلہ شاعر مشرق نے اس مصرعے میں ہماری بابت لطیف اشارے کئے ہیں۔۔۔

ہمارا مشر نہایت سنجیدگی سے سائنسی تحقیقی کاموں میں مشغول رہا کرتا تھا۔ ان کاموں پر وہ لمبے نوٹ خرچ کرتا تھا۔ اس کی تحقیقات تو عجیب ہوتی ہی تھیں؛ ان کے نتائج بھی نہایت ہولناک ہوتے۔ اکثر ہم سب اس کی سنگت میں تب پکڑے جاتے، جب وہ اپنا کوئی تجربہ ہمیں لائیو دکھا رہا ہوتا۔

تب مشر کالج میں تھا اور ہم اسکول میں۔ وہ اسکول ٹائم ختم ہونے پر ٹرالی لے کر اپنے دو ڈھائی درجن کزن گھر لے جانے کو پہنچ جاتا۔ یہ سنگل کیبن گاڑی تھی؛ مشر ہم سب کو پیچھے ٹرالی میں بھر کے نظارے کراتا، لمبے روٹ سے گھر لے جایا کرتا تھا۔ مشر کی وجہ ہی سے ہم لوگ گھر سے اسکول کے درمیان ان سب جگہوں سے واقف ہو گئے تھے، جن سے ہمیں واقف نہیں ہونا چاہیے تھا۔

ایک دن ہم لوگ چھٹی کے وقت اسکول سے نکلے تو مشر موجود تھا۔ گاڑی تو وہ لایا ہی ہوا تھا، ساتھ میں ایک کھوتا ریڑھی بھی تھی۔

اُس نے کھوتا گاڑی کے ”پائلٹ“ کو کچھ پیسے دے کر بھجوا دیا کہ تم جاو اپنے لیے کچھ کھانے پینے کو خریدو؛ ہم تب تک کھوتا گاڑی پر جھولے لیتے ہیں۔ ”پائلٹ“ گیا تو ہم لوگ کھوتا گاڑی پر سوار ہو گئے۔ مشر نے کہا، ”اُترو نیچے منحوسو! ایک تماشا دکھاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے جیب سے ایک اچھی طرح پلی ہوئی زنبوری (بھڑ) نکال لی۔

اس سے پہلے کے ہم کچھ سمجھتے، اُس نے کھوتے کے ایک نازک حساس حصے پر زنبوری (بھڑ) سے کٹوا دیا۔ ظاہر ہے کھوتے کو درد ہوا تھا، تو اس نے ایک دولتی جھاڑی، جو سیدھی جا کر ریڑھی کو لگی۔ اس مسکین جانور کا درد دُہرا ہو گیا۔ مشر نے دوبارہ وہی حرکت کی، کھوتے نے بھی وہی عمل دُہرایا۔ دولتی جھاڑنے کے بعد کھوتا دُکھ اور افسوس سے سر ہلاتا تھا۔

مشر نے کہا، دیکھو یہ سمجھتا ہے لیکن کم عقل ہے؛ دو میں سے ایک تکلیف سے بچ سکتا ہے لیکن جذباتی ہے، ہر بار تکلیف ڈبل کر لیتا ہے۔ مشر ہمیں ابھی اپنی علمی دریافت نتائج سے آگاہ ہی کرنا شروع ہوا تھا، کہ سر میسی وہاں پہنچ گئے؛ انھوں نے آتے ہی ہم پر لاٹھی چارج کیا اور سب کو ہانکتے ہوئے واپس اسکول لے گئے۔ مرغا بنا کر ”ہماری سٹریٹجک گہرائی” اچھی طرح لال کر دی۔۔۔۔ غالباً کچھ ورم بھی ظاہر ہو گیا۔

صاف ظاہر ہے، کہ مشر وہاں سے فرار ہو گیا تھا۔ ہم سب درد کے مارے پیدل ہی اپنے گھروں کو گئے۔ ہم مشر کو نشان عبرت بنانے کے لیے تلاش کرتے رہے، وہ ہمیں نہ ملا۔ بہت کوششوں کے بعد وہ ہمیں ایک درخت کے اوپر شاخوں میں چھپ کر بیٹھا ہوا دکھائی دیا۔ اس نے بتایا کہ وہ وہاں پر ٹھیک ٹھاک اور خوش و خرم ہے، اور یہ بھی کہ آج اُس کا ہم سے ملنے کا کوئی موڈ نہیں ہے۔

مشر نے یہ بھی کہا، وہ ہمیں یہ ضرور بتانا چاہتا ہے کہ جب ہمیں کوئی چٹکی کاٹے، ہمیں چھیڑے تو دولتی مار کے فوری ردعمل نہیں دینا چاہیے؛ اس سے تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ مشر نے مزید کہا کہ یہ بھی یاد رکھو کہ تماشا اگر خود نہ شروع کیا ہو، تو اس کا حصہ بننے سے بھی گریز ہی کرنا چاہیے، کہ پھر اصل تماشا اپنا ہی لگ جایا کرتا ہے۔

مشر کو تو ہم نے درخت سے اُتار لیا تھا، لیکن وہ ہمیں یہ چکما دے کر کہ ”سر میسی آ گئے“ پھر سے فرار ہو گیا تھا۔ البتہ جاتے ہوئے یہ بتانا نہیں بھولا تھا، کہ ”دہ بہ اس خوب کے بہ ہم خگی گی“ یعنی تم سب کی  ”پشت غیر منقولہ“ آج تو خواب میں بھی دُکھتی ہی رہے گی۔

سچ کہہ گیا تھا، خواب میں بھی دُکھتی رہی تھی۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi