چوکا گاؤں کا آدم خور شیر (1)


 لدھیا وادی کے قریب دریائے ساروا کے دائیں کنارے پر چوکا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے شمال مغربی کنارے سے ایک راستہ ایک چوتھائی میل چل کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ جس کا ایک تہائی حصہ تو ٹھک جاتا ہے اور دوسرا حصہ پہاڑیوں میں سے بل کھا کر کوٹی کندری میں ختم ہو جاتا ہے۔ کوٹی کندری ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ جس کے مالک چوکا کے باشندے ہیں۔

1936ء کے موسم سرما میں اس راستے پر ایک آدمی اپنے بیلوں کے ہمراہ جا رہا تھا۔ جب وہ چوکا کے قریب پہنچا تو اچانک ایک شیر جھاڑیوں سے نکل کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس آدمی نے انتہائی جرات سے کام لیا۔ وہ شیر اور بیلوں کے درمیان کھڑا ہو گیا۔ وہ شیر کو ڈرانے کے لیئے اونچی آواز میں شور مچانے لگا اور ساتھ ہی اپنی لاٹھی گھمانے لگا۔ بیلوں نے یہ موقع غنیمت جانا اور سرپٹ گاؤں کی طرف بھاگ گئے۔ جب شیر نے اپنے شکار کو ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو اس نے اپنی توجہ اس آدمی پر مرکوز کر دی۔ شیر کے خطرناک ارادے کو بھانپتے ہوئے وہ آدمی پیچھے کو مڑا اور انتہائی تیز رفتاری سے بھاگنے لگا۔ وہ ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ شیر چھلانگ لگا کر اس پر کود پڑا۔ اس آدمی کے کندھوں پر ایک بھاری ہل تھا اور اس کی پشت پر ایک بوری تھی جس میں اس نے اپنی ضروریات کی چیزیں باندھ رکھی تھیں۔ شیر نے اپنے دانت اس بوری میں گاڑ دیئے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اس آدمی نے بوری کو وہیں پھینک دیا اور مدد کے لیئے شور مچاتا ہوا گاؤں کی طرف بھاگنے لگا۔ اس کا واویلا سن کر گاؤں سے اس کے رشتہ دار اور دوست اس کی مدد کو دوڑے چلے آئے لیکن وہ آدمی مزید کسی حادثے کے بغیر گاؤں پہنچ گیا۔ شیر کا ایک پنجہ اس کے دائیں کندھے پر اس زور سے پڑا تھا کہ وہاں ایک گہرا زخم چھوڑ گیا تھا۔

جنوری 1937 کا ذکر ہے کہ سات آدمی اور دو لڑکے ٹھک سے دو سو گز مغرب کی طرف مویشی چرا رہے تھے۔ دس بجے کے قریب انہیں خیال آیا کہ ان کے کچھ مویشی بھٹک کر جنگل چلے گئے ہیں۔ انہوں نے ایک چودہ سالہ لڑکے کو انہیں جنگل سے لانے کے لئے بھیجا۔ لڑکے کو بھیج کر یہ لوگ ایک سایہ دار درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں سوگئے اور تقریباً چھ گھنٹے بعد بیدار ہوئے تو جنگل میں ایک ہرن کے بولنے کی آواز سنائی دی جو اس سمت سے آ رہی تھی جدھر مویشی بھٹک کر گئے تھے۔ ان آدمیوں نے ایک دوسرے لڑکے کو جس کی عمر بھی تقریباً چودہ برس تھی پہلے لڑکے کے سراغ میں بھیج دیا۔ جونہی وہ جنگل میں داخل ہوا مویشی ایک دم افراتفری کے عالم میں ایک ندی کی طرف دوڑے۔ ندی کے قریب ایک شیر ایک گائے پر کود پڑا اور سات آدمیوں کے سامنے اسے ہلاک کر دیا۔ مویشیوں کی بھاگ دوڑ اور آدمیوں کے شور شرابے سے گاؤں والے ان کی طرف متوجہ ہوئے اور تھوڑی ہی دیر میں ندی کے سامنے والی کھلی زمین پر لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ ان لوگوں میں دوسرے لڑکے کی ماں بھی تھی جو بیوہ تھی۔ جب اس نے لوگوں کو اپنے بیٹے کا نام پکارتے سنا تو وہ ان کی طرف صورتحال معلوم کرنے کے لئے گئی۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کا بیٹا جنگل میں مویشیوں کو ہانکنے کے لئے گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا تو وہ خود اس کی تلاش میں نکل پڑی۔ اس لمحے پہلے لڑکے کے والدین بھی وہاں پہنچ گئے اور جب انہوں نے ان سات آدمیوں سے اپنے بیٹے کے متعلق پوچھا تو انہیں یاد آیا کہ انہوں نے تو اسے صبح دس بجے سے ہی نہیں دیکھا۔

بیوہ عورت کے پیچھے تمام لوگ بھی جنگل میں داخل ہو گئے وہ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ اسے اپنے بیٹے کی لاش دکھائی دی اور اس کے قریب ہی جھاڑی میں پہلا لڑکا بھی مرا پڑا تھا۔ شیر نے اس کے جسم کا ایک حصہ کھا لیا تھا۔ دونوں لاشوں کے بیچ ایک بچھڑا مرا پڑا تھا۔ بعد میں جب مجھے اس المناک حادثے کی تفصیل بتائی گئی تو میں نے اندازہ کیا کہ اس روز شیر جنگل میں اس کھلی زمین کے پاس ہی کہیں لیٹا تھا جہاں مویشی چر رہے تھے اور جب بچھڑا جو آدمیوں کے دیکھے بغیر جنگل میں چلا گیا تھا شیر کے قریب آیا تو اس نے اسے ہلاک کر دیا اور ابھی وہ اسے اٹھا کر چلنے بھی نہ پا یا تھا کہ پہلا لڑکا اس کی تلاش میں وہاں آ نکلا اور شیر نے اسے بھی ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد شیر دونوں شکاروں کے پاس چار بجے شام تک لیٹا رہا۔ تب ایک ہرن پانی پینے کی غرض سے گزرا تو اس نے شیر کی بو سونگھ کر بلند آواز میں بولنا شروع کر دیا۔ یہ آواز سن کر ان آدمیوں کو اس حقیقت کا احساس ہوا کہ ان کے مویشی جنگل میں چلے گئے تھے اور انہوں نے دوسرے لڑکے کو انہیں واپس ہانکنے کے لئے جنگل میں بھیجا۔ بدقسمتی سے وہ لڑکا بھی سیدھا وہاں جا پہنچا جہاں شیر اپنے شکار کی حفاظت کر رہا تھا اور اس نے اسے بھی ہلاک کر دیا۔

دوسرے لڑکے کی موت کے شاہد مویشی بھی تھے۔ جو اس کی مدد کے لئے فورا وہاں آئے۔ انہوں نے شیر کو وہاں سے بھگا دیا اور خود بھی ڈر کے مارے افراتفری کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ اپنے شکار سے محروم ہونے پر شیر کو غصہ آیا اور وہ بھگوڑے مویشیوں کے پیچھے بھاگا اور آخری گائے پر کود کر اپنا انتقام لے لیا۔ اگر مویشی گاؤں کی سمت نہ بھاگتے تو ممکن تھا کہ شیر کے انتقام کی آگ فقط ایک ہی مویشی کے ہلاک کرنے سے نہ بجھتی۔

 ان ظالمانہ حملوں سے نینی تال اور الموڑا کے ضلعوں میں ایک ہنگامہ بپا ہو گیا اور شیر کو ہلاک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جانے لگی۔ ضلع کے بعض افسر رات رات بھر مچانوں پر بیٹھے رہے مگر فقط دو مرتبہ شیر کو زخمی کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ اس کے بعد شیر نے انتقامی جذبے کے تحت زیادہ انسانوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا اور خاص طور پر ٹھک کے گاؤں میں۔

ٹھک سے دو سو گز اوپر کی طرف گندم کا ایک کھیت ہے۔ اس میں فصل کاٹی جا چکی تھی اور دو لڑکے مویشی چرا رہے تھے۔ وہ دونوں بھائی تھے۔ اپنی حفاظت کے لئے وہ کھیت کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ کھیت کے شمالی کنارے پر جھاڑیوں کا ایک جھنڈ تھا۔ وہاں سے کوئی پہاڑی شروع ہو جاتی تھی جو کوئی ایک ہزار فٹ اونچی تھی۔ اس پہاڑی پر سے دونوں لڑکے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ شام کے قریب ان کی ایک گائے بھٹک کر جھاڑیوں کے جھنڈ کی طرف چلی گئی۔ دونوں لڑکے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اسے ہانکنے کے لئے ادھر گئے۔ بڑا لڑکا آگے تھا۔ جونہی وہ ایک جھاڑی کے قریب سے گزرا تو شیر جو وہاں چھپا بیٹھا تھا اس پر کود پڑا۔ چھوٹا لڑکا خوف کے مارے گاؤں کی طرف دوڑا اور چوپال میں بیٹھے ہوئے چند آدمیوں کے قدموں میں سسکیاں بھرنے لگا۔ جب لڑکے میں بولنے کی طاقت آئی تو اس نے بتایا کہ ایک بڑے لال رنگ کے جانور نے اس کے بھائی کو ہلاک کر دیا ہے۔ اس نے زندگی میں پہلی بار شیر کو دیکھا تھا۔ اسی وقت دیہاتیوں کا ایک گروہ بڑی دلیری سے خون کی لکیر کے پیچھے پیچھے جنگل میں لڑکے کی لاش ڈھونڈنے چل پڑا۔ چونکہ رات قریب تھی لہذا وہ لوگ کوئی ایک میل جنگل میں چل کر واپس ٹھک آ گئے۔ دوسرے دن آس پاس کے دیہات کے لوگوں کی مدد سے انہوں نے پھر اپنی تلاش شروع کر دی۔ لیکن سارے دن کی تلاش کے بعد انہیں فقط اس لڑکے کی سرخ ٹوپی اور خون میں لتھڑے ہوئے کپڑے مل سکے۔ چوکا کے آدم خور کا یہ آخری شکار تھا۔

چوکا کے آدم خور شیر کے ڈر سے لدھیا وادی کے لوگ وہاں سے ہجرت کرنے لگے اور جب ایبٹ سن نینی تال، الموڑا اور گڑھوال کے اضلاع کا ڈپٹی کمشنر ہوا تو اس نے اپنے ڈویژن کو اس خوفناک شیر سے رہائی دلانے کا تہیہ کر لیا۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).