صحافی کو فحش پیغامات بھیجنے والے کو ملک بدر کر دیا گیا


دلی کی ایک صحافی رعنا ایوب نے مشرق وسطیٰ میں مقیم اپنے ایک ہم وطن کی جانب سے بھیجے گئے ناشائستہ پیغامات کو فیس بک پر شائع کیا جس کے بعد اس شخص کو نہ صرف ملازمت سے نکال دیا گیا ہے بلکہ ملک بدر بھی کر دیا گیا ہے۔

دلی میں مقیم رعنا ایوب اپنی بے باک صحافت کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں اور گجرات فسادات پر ان کی تحقیق ’گجرات فائلز‘ کے نام سے چھپ چکی ہے۔

رعنا ایوب نے چھ اپریل کو فیس بک پر ان کو بھیجے جانے والے فحش پیغامات کی سکرین شاٹس کو شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ انھیں اس قسم کے پیغامات بھیجے جا رہے ہیں۔ انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ صرف اس نازیبا مواد کی ایک مثال ہے جو مجھے روز بھیجا جاتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اب وقت ہے اس بیمار ذہن والے شخص کے چہرے سے پردہ اٹھا دیا جائے۔ ‘

رعنا ایوب کو ناشائستہ پیغامات بھیجنے والا بالاچندرن لعل دبئی کی ’نینشل پینٹس‘ نامی کمپنی میں ملازم تھا۔

رعنا ایوب نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس شخص کے خلاف شکایت انہوں نے نہیں کی تھی بلکہ انہوں نے تو عرب امارات میں مقیم چند دوستوں سے اس بارے میں ذکر کیا جس کے بعد کسی خیر خواہ نے اس شخص کی کمپنی کو شکایت کر دی۔

رعنا ایوب نے یہ بھی بتایا کہ ان کے خیال میں شاید وہ شخص انڈیا پہنچ چکا ہے اور انہوں نے دلی میں مذکورہ شخص کے خلاف ایک آن لائن ایف آئی آر بھی درج کروائی ہے۔
کمپنی کو اس ملازم کی حرکات کا معلوم ہوتے ہی اسے ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔

نیشنل پینٹس نے معاملے کے سامنے آنے کے صرف دو روز کے اندر ایک پیغام میں کہا: ’ہم نے اطلاعات کی تصدیق کر لی ہے اور اس شخص کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا ہے۔ ‘
کچھ روز پہلے رعنا ایوب نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’لعل کا ویزہ بھی ختم کر دیا گیا ہے اور اسے متحدہ عرب امارات سے واپس انڈیا بھیجا جا رہا ہے۔ ‘

رعنا ایوب نے بز فیڈ کو بتایا کہ انھیں بے ہودہ پیغامات تو ملتے ہی رہتے ہیں لیکن اس شخص نے تو اپنے ذاتی پروفائل سے انھیں ایسے پیغامات بھیجے۔ بالاچندرن لعل نے جس پروفائل سے رعنا ایوب کو ناشائستہ پیغامات بھیجے اس پروفائل کی تصویر میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔

رعنا ایوب کہتی ہیں: ’میں نے اس لیے اسے بے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا کہ بہت ہو چکا۔ ماضی میں جب بھی میں نے لوگوں کو شکایت کی تو پولیس نے مجھے کہا کہ کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ پیغامات بےنامی اکاونٹ سے بھیجے گئے ہیں۔ کمپنی نے مجھے یہ بھی بتایا کہ یہ شخص کئی دوسری عورتوں کو بھی ایسے گھٹیا پیغامات بھجوا رہا تھا۔ ‘

رعنا ایوب نے کہا کہ کمپنی نے مجھ سے رابطہ کر کے بالاچندرن لعل کے رویے پر معذرت کی اور انھیں پھول بھیجنے کی پیشکش بھی کی۔
’ایسا انڈین کمپنیوں میں نہیں ہوتا۔ مجھے یہ بہت اچھا لگا اور اس سے میرا حوصلہ بڑھا ہے۔ ‘

بھارت کے سوشل میڈیا پر رعنا ایوب کی تعریف کی جا رہی ہے اور لوگ امید کر رہے ہیں کہ انڈین کمپنیاں بھی اس طرح کے واقعات پر ایسے ہی ردعمل کا اظہار کریں گے جو اس کمپنی نے کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp