ہم لوگ منافق ہوتے ہیں


وہ کہتے ہیں نہ کہ مغرب میں جا کر تو سورج بھی غروب ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ روزانہ شراب پیتے ہیں۔ جنسی تعلقات کی کوئی حد انہوں نے نہیں باندھی ہوئی۔ ماں باپ کو وہ اولڈ ہوم چھوڑ آتے ہیں۔ خنزیر کے گوشت سے انہیں رغبت ہے۔ محبت ان کے لئے ایک رات یا زیادہ سے زیادہ کچھ مہینے ایک چھت کے نیچے رہنے کا نام ہے۔ عائلی زندگی کو وہ ٹھوکر پہ رکھتے ہیں۔ سودی نظام میں وہ گندھے ہیں۔

پھر کیا ہے ایسا جو وہ مغرب ہو کر بھی نہیں ڈوب رہے اور پوری آب و تاب کے ساتھ کامیاب ہیں، چاہے وہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو۔ ٹیکنالوجی ان کی گرفت میں، طب میں وہ آگے، تعلیم و تحقیق میں وہ مشرق کو کئی سو سال پیچھے چھوڑ چکے، اقتصادیات، فنون لطیفہ، مواصلاتی نظام اور باہمی رابطے میں بھی انہوں نے مشرق کو چکرا کے رکھ دیا ہے۔ آخر سبب کیا ہے ان کی کامیابی کا؟

ان کی کامیابی کے پیچھے دراصل ان کی خلوص نیتی ہے۔ اہل مشرق منافقت کا شکار ہیں۔ وہ لوگ حرام کھاتے پیتے ہیں تو وہ جھوٹ نہیں کہتے جبکہ ہم اپنے اطراف میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتے ہیں جو حرام کھاتے ہیں، نشہ کرتے ہیں مگر دوسروں کو نصیحت کرتے وقت خود کو برائیوں سے پاک بتاتے ہیں۔ ہمارے یہاں شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی مختلف نوعیت کی رنگینیاں زندگی کے کینوس پہ بکھیری جاتی ہیں مگر خود کو پارسائی کے فلک کا چاند بتلانا ہمارا وطیرہ ہے۔ اکثر یہاں شراب نہیں پیتے مگر صرف زمین پر۔ ہوا میں اڑتے ہی مشروب مغرب کی یاد گلے میں کانٹے ڈالتی ہے۔ اکثریت خنزیر تو نہیں کھاتی مگر رشوت ضرور لیتی ہے۔ حرام تو دونوں ہیں۔ اسی رشوت کے پیسوں سے خریدے نئے گھر یا دوکان پہ ہذا من فضل ربی لکھوانا نہیں بھولتی کیونکہ خود چاہے کسی کی زندگی میں نحوست بن جائو مگر اپنی اولاد کو مصیبت سے دور رکھنا ہے۔

مغرب میں کوئی آدمی شاید ہی عورت کو اسکے ماضی کے کسی تعلق کا طعنہ مارتا ہو مگر یہاں ہزاروں سال پہلے خالہ یا چچا کے گھر سے ٹوٹی منگنی کو بھی لڑکی کی زندگی میں ایک عذاب کی حیثیت حاصل ہے۔ کہتے ہیں وہاں شوہر گھر پہ رہ کر بچہ سنبھالتا ہے اور عورت کمانے جاتی ہے۔ یہاں بچاری ورکنگ مدر اپنی تنخواہ سے ہاوس کیپر بھی رکھ لے تو اسے خاندانی وقار پہ ایک کالک سمجھا جاتا ہے شوہر کا بچے سنبھالنا زن مریدی میں پی ایچ ڈی اور بے شرمی کہلاتا ہے۔ مغرب میں اگر لڑکوں کو یہ پتا ہو کہ چاہے وہ کالا، ناٹا، ویلا، نشئی، نفسیاتی اور فضول شخصیت کا مالک ہی کیوں نہ ہو اگر اسے لڑکی وہ بھی جہیز کے ساتھ مل سکتی ہے تو شاید وہاں کے لڑکے سڑکوں پہ نکل کے جشن شروع کر دیں۔ وہاں اپارٹمنٹ کیلئے ایک سوفا خریدنا بھی منصوبہ بندی اور بچت کا کام ہے اسی لئے اس سوفے کی قدر بھی ہوتی ہے۔ یہاں جہیز میں مفت ہاتھ آئے فرنیچر کے ڈیزائن اور رنگ میں بھی کیڑے نکال کر واپس کروانا ایک عام سی بات ہے۔

تعلیم اور تحقیق سے تو خیر مشرق نے اپنا واسطہ بنایا بھی نہیں۔ مسلمان بادشاہوں نے جنگ و جدل سے بچنے والے وقت کو رقاصاوں، مسخروں اور درباریوں کو سپرد کر کے تعلیم اور تحقیق کے دروازے بند کر کے خوشامدی اور احمق لوگوں کی ترقی کا دروازہ کھولا۔ آج ہم سب ایک ملحد کی ایجاد فیس بک پہ اپنی روز کی فرسٹریشن دوسروں پہ نکالتے ہیں، کافروں کی ایجاد کی گئی موٹر گاڑیوں میں گھومتے ہیں، ان کے بنائی مشینوں سے کپڑے سیتے، دھوتے، استری کرتے ہیں اور پورا دن ان ہی کے بنائے طریقوں سے کاروبار کرتے ہیں۔ مگر ہم میں اور ان میں واضح فرق ایمانداری کا ہے۔ وہ اپنے دفتری اوقات میں سوتے نہیں، گھر جلدی نہیں جاتے، مریضوں کو سڑک پہ نہیں رولتے، سنگل مدر بھی اپنے بچے فخر سے پالتی ہے ، سڑک پہ کتا ان کا ننھا وجود نہیں بھنبھوڑتا، یتیم کی کفالت وہ خوشی سے کرتے ہیں۔ ایڈاپشن کو انہوں نے عام کر دیا اور ہم نے بری بات سمجھ رکھا ہے۔ رشتوں میں منافقت وہ نہیں کرتے، والدین سے شروع دن سے فاصلہ کر لیتے ہیں بجائےیہ کہ ان کے ساتھ رہ کر دکھ دینے کے ایک ہی بار سچ سے کام لیتے ہیں۔ بیٹی کی پیدائش پر منہ نہیں بسورتے اور شادی کے اگلے ہی دن سے کسی لڑکی کے اعصاب پہ سوار نہیں ہوتے کہ کب؟ کیوں نہیں؟ وجہ؟ حکیم، پیر صاحب، وظائف۔ وہ دال بھی کھاتے ہیں تو خالص اور ہمیں اللہ اکبر پڑھا گوشت بھی پریشر والا ملتا ہے۔ ان کے اسکول میں استاد تعلیم دیتا ہے ہمارے استاد دیتے ہیں سوٹیوں کے نشان۔ اساتذہ کیوں دلجمعی سے پڑھائیں؟ ایک تو ان کی تنخواہ کم مزید یہ کہ ان سے انتخابات، مردم شماری، خانہ شماری جیسے کاموں کیلئے خواریاں اٹھوا کر ان کی فرسٹریشن میں اضافہ کرنے کا پورا انتظام کیا جاتا ہے۔

ہم نے وہاں جا کر کیا کیا اور انہوں نے یہاں آکر کیا کیا؟ ا سکے لئے ہمیں آئینے کا ایک نیا رخ دیکھنا پڑے گا جو بے انتہا ناخوشگوار ہے مگر ہے بہرحال حقیقت۔

رودرھم، جنوبی یارکشائر انگلینڈ میں 1997 سے 2013 تک ایک منظم جنسی اسکینڈل میں ملوث اپنے گندے کرتوتوں سے ملک و قوم کا نام خراب کرنے والے بد قسمتی سے پاکستانی مسلمان تھے اور انکے متاثرین کی تعداد 1600 سے تجاوز کر چکی تھی۔ اب دیکھئیے ایک غیر مسلم فرنگی نے یہاں کیا کیا؟ ایک برطانوی خاتون مورین لائنز (تمغہ امتیاز) 1980 میں پہلی بار پاکستان آئیں اور اسکے بعد انہوں نے اپنی زندگی کیلاش (چترال) کی بہبود کیلئے وقف کردی۔ ان کا انتقال مارچ 2017 میں پشاور میں ہوا اور انہیں یہیں دفنایا گیا۔ مرتے وقت بھی وہ تین یتیم بچوں کی کفالت کر رہی تھیں۔

یہ ہے دراصل سوچ کا فرق۔ ہمارا یقین ہے کہ وہ کافر ہیں تو وہ تو کوئی نیکی کر نہیں سکتے جبکہ ہم پیدائشی مسلمان خود کو جنت کا حقدار بتاتے ہیں اس لئے فخر سے گناہ کرتے ہیں۔ یہاں لوگ اپنی گاڑی صاف رکھنے کی خاطر باہر سڑک کو گندا رکھتے ہیں، کسی کے گھر جانے کا مقصد اپنائیت نہیں بلکہ جاسوسی ہوتا ہے، یہاں لڑکے کے جوان ہونے کو فخر اور لڑکی کے جوان ہونے کو فکر تدبیر کیا جاتا ہے، یہاں بیمار کی مزاج پرسی محض بدلہ یا احسان ہوتی ہے، یہاں 16 سالہ تعلیم صرف ڈگری کے حصول کیلئے ہوتی ہے شعور کیلئے نہیں اور یہاں خدا، نبی اور عقائد کی دکان لگتی ہے۔۔۔۔

مگرمیں نے اس معاشرے کے لوگوں سے امید لگائی ہے۔ اسے سادگی کہیں یا حماقت بہر حال اس معاشرے سے رفاقت کا انجام اکثر بد گمانی سے شروع ہو کر جہنم کے سرٹیفیکیٹ پر ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).