بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات


سوشل میڈیا پر کسی پرانی خبر کا اخباری تراشا دیکھا  ہے۔ ایک ایسے والد کے بیان حلفی کی خبر چھپی تھی جس نے اسلام آباد کی کسی زیریں عدالت میں بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کے ملزم کو فی سبیل اللہ معاف کر دیا تھا۔ میں اسے معمول کی خبر سمجھ کر نظر انداز کر گزرتا کیونکہ ذہنی طور پر ہم نے اس رویہ کو تسلیم کر لیا ہے۔ لیکن فی سبیل اللہ کے الفاظ نے جھنجھوڑ کر غور کرنے کی دعوت دی کہ یہ کون سی اللہ کی راہ ہے جس میں ایک درندہ صفت شخص کو محض والد یا سرپرست ہونے کی بنا پر معاف کر دیا ہے۔ وہ شخص جس نے ایک معصوم کی زندگی تباہ کر دی کیا ایسے سلوک کا مستحق ہے؟ اس بچے کی خود اعتمادی میں کس قدر کمی آئی ہو گی؟ اس کا درد کسی نے محسوس کیا ہو گا؟ وہ کس نفسیاتی اذیت سے گزرا ہو گا؟ کیا معصومیت کے باوجود اسے مجرم نہیں سمجھا جائے گا؟ اس کے والد نے ایک وحشی کو کیسے معاف کر دیا؟ کیا یہ سب کچھ اتنا آسان ہی ہے جتنا بیان کرتے ہوئے نظر آ رہا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب نہ میرے پاس ہے اور نہ ہی معاشرے اور ریاست نے تلاش کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ یہ ہمارے معاشرے کا پہلا جرم ہر گز نہ تھا۔ خاکم بدہن یہ آخری جرم بھی نہیں دکھائی دے رہا۔ لیکن کیا ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے یا نہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

شاید میں پانچویں جماعت میں تھا جب لاہور میں سو بچوں کے قاتل کا ایک مشہور واقعہ زبان زد عام ہوا تھا۔ ابتدائی معلومات ریڈیو پاکستان کے کسی پروگرام میں سنی تھیں اور بعد ازاں سنڈے میگزین میں مکمل تفصیلات پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس قصے کو پڑھتے ہوئے عجیب خوف طاری ہو رہا تھا۔ انجان بندہ نظر آ جائے تو مجھے وہ اسی قاتل کے مشابہ نظر آتا۔ کئی سالوں بعد مجھے لاہور میں ملازمت کا موقع۔ اس شہر سا شہر کہیں نہیں ملا۔ جو جیسا ہے لاہور اس کے لیے ویسا ہے۔ بی بی پاکدامن میں واقع کمرہ میں ہم فقط سونے جاتے تھے جناح باغ تک پیدل جانا وہاں دوستوں کے ساتھ بیٹھے بیٹھے مشاعرہ منعقد کر لینا۔ مال روڈ پر چھٹی والے دن پرانی کتابوں کی چھانٹی کرنا وہیں کھڑے کھڑے کئی کتابوں کے مقدمے پڑھ لینا۔ کبھی کبھار ڈاکٹر اسرار احمد علیہ رحمہ کی خدمت میں حاضر ہو جانا۔ افطار ڈنر کے لیے مسجد قادسیہ پہنچ جانا لمبی قرآت کے ساتھ تلاوت کرتے عبدالودود عاصم کو سنتے ہی چلے جانا۔ شاہی قلعے میں تاریخ اور فن تعمیر کے نادر نمونے دیکھنا۔ جاوید منزل پر گھنٹوں گزار دینا اقبال علیہ رحمہ سے منسوب چیزوں کو دیکھتے ہوئے فرط جذبات سے دھڑکنوں کا بے تاب ہو جانا۔ زندگی تو کسی افسانے کا کردار لگتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود دل کے تہہ خانے میں سو بچوں کے قاتل کی وحشت ناک مسکراہٹ میری اس خیالوں کی جنت کو دھندلا کر دیتی۔ عجیب بے زاری محسوس ہوتی اور میں سر جھٹک کر اس خیال سے آزادی پاتا۔ وہ قصہ نہ پڑھا ہوتا تو شاید لاہور لیے زیادہ خوبصورت ہوتا۔

عموماً ہم یہ سوچتے ہیں کہ جو لوگ ایسے واقعات کو رپورٹ کرتے ہیں ہمارے سامنے لاتے ہیں وہ پاکستان کو بدنام کرتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی گلہ رہتا ہے کہ شرمین عبید چنائی ہمارا گندہ چہرہ فروخت کر کے اپنے لیے آسکر خرید لاتی ہیں۔ کیا یہ ان فلم سازوں اور میڈیا رپورٹرز کا قصور ہے یا ان وحشی اور درندہ صفت لوگوں کا کہ جو معصوموں کی زندگی تباہ کرتے ہیں۔ وہ ایک بچے سے اس کا مستقبل چھین لیتے ہیں۔ شکار ہونے والا بچہ یا بچی زندگی میں اگر کسی مقام پر پہنچ بھی جائیں تو بدنامی اور کراہت کا یہ داغ ساری عمر پیچھا کرتا ہے۔

گزشتہ مہینوں میں قصور میں بچوں کی بڑی تعداد کے ساتھ جنسی زیادتی اور ان کی فلم بندی کی خبر عام ہوئی تو ہر شخص تڑپ اٹھا تھا توقع پیدا ہو چلی تھی کہ اب ارباب اختیار کوئی ایسا اہتمام کر لیں گے کہ کسی کو ایسے قبیح جرم کی ہمت نہیں ہو گی۔ مگر وہ واقعہ بھی محض میڈیا ریٹنگز اور سیاسی مفادات کی نذر ہو گیا۔ اس واقعہ پر شہباز شریف کی وزارت اعلی کے جانے کا کسی نے خواب دیکھا تو وہیں حکومتی ذمہ داران بھی قرار واقعی سزا دینے کے عزم کا اعادہ کرتے دکھائی دیے۔ اور جس روز فائل فیتے کی نذر کی جا رہی تھی اس دن کوئی ماتم نہیں برپا تھا محض دو سطری خبر کے ذریعے قوم کو آگاہ کر دیا گیا تھا کہ یہ ایک زمین جائیداد کا تنازعہ تھا اور جو فریقین کے درمیان طے ہو گیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ سب میڈیا رپورٹس جھوٹی تھیں تو ان میڈیا ہاؤسز کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی گئی جنہوں نے ایک پورے شہر کی ساکھ کو مجروح کیا ہے۔

صوبائی اور قومی اسمبلی میں کیا قانون سازی ہوئی ہے کہ اس جرم کی روک تھام ممکن بنائی جا سکے۔ پولیس کی ٹریننگ میں کیا بہتری لائی گئی ہے کہ وہ اس واقعہ کی سنگینی کا ادراک کر سکیں۔ ایسے جرائم کا شکار ہونے والے بچوں کی نفسیاتی بحالی کے لئے کون سے اقدامات کئے گئے ہیں۔ جن لوگوں کے خوف کی وجہ سے ایک باپ اپنے جگر گوشے پر ہونے والے ظلم کو اللہ کی رضا سمجھ کر معاف کرنے پر مجبور ہو گیا انہیں سزا کون دے گا۔ کیا یہ اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف نہیں ہے۔ کیا ایسا قانون جو معصوم بچوں کے لواحقین کے معاف کر دینے پر ایسے مکروہ چہروں کو آزاد کر دے مبنی بر انصاف کہلا سکتا ہے۔ ایسے سب سوالوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں کیونکہ میں، میری ریاست اور میرا معاشرہ ہم سب بے حس ہو چکے ہیں ہمیں اس پر سوچنے کی فرصت نہیں ہے۔ ہمیں اگلے انتخابات جیتنے ہیں، ہمیں سیاست دان نااہل قرار دینے ہیں۔ ہم نے فوج سمیت سب اداروں پر تنقید کرنی ہے۔ ایسے بچوں سے معذرت کرتا ہوں کہ آپ اتنے اہم نہیں ہیں. مجھے کچھ اور کام کرنا ہوتے ہیں. میرا دماغ مت خراب کیا کرو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).