آصف علی زرداری کے تین گمشدہ رتن


ابھی شرجیل میمن کی واپسی، پانچ ارب روپے کرپشن کیسز میں ضمانت اور ڈاکٹر عاصم کی ساڑہے چار سوارب روپے سے زائد کی کرپشن کیسز میں ضمانت پررہائی پر پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے قائد آصف علی زرداری کی قائدانہ صلاحیت اور ڈیل کرکے ان کو رلیف دلوانے کے کارنامے کی جے جے کار کرنے سے فارغ ہی نہیں ہوئی تھی کہ زرداری صاحب کے تین خاص آدمیوں کے یکے بعد دیگرے غائب ہونے نے جیالوں کے جشن کا مزہ کرکرا کر دیا۔

آخریہ تین لوگ اشفاق لغاری، نواب لغاری اور غلام قادر مری کون ہیں؟ یہ پیپلز پارٹی کے اتنے خاص لوگ تو ہوں گے ہی کہ سندھ اسمبلی سے لے کر قومی اسیمبلی تک پوری پارٹی سب کام چھوڑ کر ان کے لئے سراپا احتجاج ہے۔ اور ان کی گمشدگی کو صوبائی خود مختاری میں مداخلت قرار دے رہی ہے۔ اگر یہ بھی نہیں تو یہ لوگ پارٹی کے عھدیدار تو ضرور ہوں گے اوراگر وہ بھی نہیں تو بھلا پارٹی کے لئے ان کی ان گنت قربانیاں تو ضرور ہوں گی۔ مگر ایسا کچھ نھیں۔ ان تینوں کی واحد خاصیت یہ ہے کہ یہ آصف علی زرداری کے خاص آدمی ہیں بس۔

مجھے اس بات پر بھی حیرت ہے کہ ان تین میں سے دو بندے تو سندھ سے غائب ہوئے ہیں اور سندھ حکومت نے بھی ان کی گرفتاری کی نہیں گمشدگی کی ہی بات کی ہے تو پھر یہ احتجاج کیسا اور کس کے ساتھ، سندھ میں تو پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، ان کو ڈھونڈھنا بھی ان ہی کو چاہیے۔

آئیں دیکھیں کہ آخر یہ تین لوگ ہیں کون جن کے لئے پیپلز پارٹی بھرپور احتجاج پر اتر آئی ہے۔

اشفاق لغاری، اومنی گروپ کے کنسلٹنٹ ہیں۔ اومنی گروپ کے کرتا دھرتا انور مجید ہیں اور انور مجید آصف علی زرداری کے خاص الخاص ہیں۔ سندھ کے کافی معاملات انور مجید چلاتے ہیں۔ پانچ اپریل کو اشفاق لغاری کی بیوی ڈاکٹرعاصمہ نے کراچی کے گڈاپ پولیس اسٹیشن پر ان کے اغوا کی درخواست دی ہے جس کے مطابق ان کے شوہر شام سات بجے ڈفینس کراچی سے حیدرآباد جانے کے لئے نکلے مگر اس کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ پولیس کو ان کی کار سپر ہائی وے پر دربار ہوٹل کے نزدیک ملی ہے۔ اشفاق لغاری کا پیپلز پارٹی میں کوئی تنظیمی عہدہ کبھی سننے میں نھیں آیا

دوسرے گمشدہ نواب لغاری ہیں۔ ان کے ایک عزیز نے اسلام آباد کے تھانے لوئی بھیر میں درخواست درج کروائی ہے کہ پانچ اپریل کی رات کو نواب لغاری کو نامعلوم افراد ان کے سواں گارڈن میں واقع گھر سے اغوا کر کے لے گئے ہیں۔ نواب لغاری کالیج کے زمانے میں جیئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں رہے۔ یونیورسٹی میں وہ ڈاکٹر قادر مگسی کے ساتھ ہو گئے اور گورباچوف کے نام سے مشہور ہوئے۔ حیدرآباد تیس ستمبر کیس میں وہ گرفتار ہوئے۔ اس قید کے دوران وہ ڈرامائی انداز سے برقعہ پہن کر سینٹرل جیل کراچی سے فرار ہوئے۔ جس کے بعد آصف زرداری کے نزدیک آگئے۔ نوشہرو فیروز کے زمیندار اور سندھ حکومت کے افسر عالم بلوچ کے قتل کے کیس میں وہ آصف زرداری کے ساتھ نامزد رہے۔ عدالتوں سے ضمانتوں اور کچھ کیسز سے آزاد ہونے کے بعد گذشتہ کچھ برس سے اسلام آباد میں مقیم تھے۔ ان کا بھی تنظیمی طور پر پیپلز پارٹی سے کوئی واسطہ کبھی سننے میں نھیں آیا۔

تیسرے گمشدہ غلام قادر مری بھی پیپلز پارٹی کے کسی چھوٹے سے عہدے پر بھی نہیں رہے۔ بس حال ہیں میں ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر بنے ہیں۔ ان کا کوئی سیاسی پروفائل نہیں۔ فریال ٹالپر کے شوہر میر منور ٹالپر کے آدمی تھے۔ وہاں سے زرداری صاحب کے خاص آدمی بنے۔ سندھ میں ہیومن رائیٹس کے سرگرم رہنما علی پلھ ایڈوکیٹ کے بھائی ڈاکٹر شکیل کے اغوا کیس میں ایف آئی آر میں نامزد ہیں۔ غلام قادر مری جامشورو میں پاور ہائوس کے نزدیک سے پر اسرار طور پر گمشدہ ہیں۔ ان کی گاڑی روڈ سائیڈ پر پائی گئی۔

یہ تینوں افراد پیپلز پارٹی کے تنظیمی رہنما کبھی بھی نہیں رہے۔ مگر پوری پیپلز پارٹی اور حکومت سندھ ان تینوں کے لئے بھرپور احتجاج میں ہے۔ حیرت ہے کہ اب ہالہ کے مخدوم، وزیر اعلیٰ مراد شاہ، نثار کھوڑو، نوید قمر، مہر سردار، لونڈ سردار، مگسی سردار، پتافی سردار، جام، ٹالپر، بجارانی، کھوسا، سندرانی، کھرل، وسان، دھاریجا، شاھ، جکھراںی، سلطان کوٹ کے آغا اور دوسرے بڑے بڑے خاندان اور لیڈر ان تینوں کے لئے احتجاج کر رہے ہیں جن کا کوئی سیاسی پروفائل نہیں بس ان کی پہچان صرف یہ ہے کہ یہ آصف علی زرداری کے خاص بندے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).