ٹرک آرٹ، ملالہ یوسف زئی اور خربوزہ کاٹنے والا ڈاکو


سال 2009ء میں نامور ماہر لسانیات ڈاکٹر طارق رحمان کے ساتھ ایک دلچسپ تحقیقی پراجیکٹ پر کام کرنے کا موقع ملا۔میرے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ ڈاکٹر صاحب کی اس تحقیقی کاوش کیلئے ٹرک پر بنی ہوئی تصاویر لوں اور انہیں بھیج دوں۔ اس مقصد کیلئے میں نے اپنے ایک نیازمند شاگرد کی ڈیوٹی لگائی، جس نے اڑ ھائی سو مال بردار ٹرکوں کے پیچھے بنی ہوئی تصاویر کھینچیں اور میرے حوالے کر دیں۔ میںنے تصویریں ڈاکٹر صاحب کو بھجوادیں ، انہوں نے اپنے لحاظ سے اس کا تجزیہ کیا، رپورٹ لکھی، چھپ گئی، بات ختم ہوئی۔ لیکن میرے ذہن میں جو بات اٹک کر رہ گئی وہ یہ تھی کہ ہمارے ہاں کن افراد کو سماجی سطح پر بطور ہیرو پسند کیا جاتا ہے؟۔ جملوں، اشعار اور ٹرکوں پر بنائی گئی خوبصورت دیومالائی اور اساطیری تصاویر اور ان کی جمالیاتی اقدار کو بالائے تاک رکھتے ہوئے یہ سوال اہم ٹھہرا کہ ٹرک ڈرائیور مخصوص افراد کی تصاویر کیوں کر اپنی گاڑیوں کے پیچھے بنواتے ہیں۔ اس میں اگرچہ فوجی آمروں خصوصاً جنرل ایوب خان کی تصاویر جو کہ متواتر بنائی گئی تھیں کی ایک بنیادی وجہ بتائی گئی کہ وہ معرکہ 1965ء کے فاتح جنرل تھے۔ اس کے علاوہ کچھ مشہور قبائلی پولیس افسران کی تصاویر تھیں، پوچھنے پر پتہ چلا کہ خصوصا ًسند ھ اور پنجاب کی پولیس ان تصاویر کا لحاظ رکھتے ہوئے ہاتھ ہلکا رکھتی ہے۔ ایک مشہور سندھی موسیقاروگلوکار کی بڑی مونچھوں والی تصویر سب سے زیادہ دلچسپی کی حامل رہی۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ کوئٹہ اور شمالی بلوچستان کے ٹرک ڈرائیور (جن میں اکثریت پشتونوں کی تھی)اس تصویر کو سندھ کے مایہ ناز ڈاکوﺅں کی نظر بد سے بچنے کیلئے بنواتے ہیں۔ اس کے علاہ ٹرکوں کی پشت پر مدتوں رہنے والی ان تصاویر کی چھوٹی قبیل ان مقامی ڈاکوﺅں (مقامی اصطلاح بدمعاشوں) کی تھیں جو ڈاکوپولیس مقابلے میں ہلاک کئے گئے یا اپنے مردانگی کے جوہر دکھانے اور اپنے قبیلے کی ناک رکھنے کے مقصد کو عملی جامہ پہناتے ہوئے کام آئے۔البتہ قضائے الٰہی سے مرنے والے ڈاکو یا راہزن اس اہلیت پر پورے نہیں اترتے۔

پچھلی عید پر جب گاﺅں جانا ہوا تو ایک رشتے دار کا نیا نویلا ٹرک ڈیرہ غازی خان سے بن سنور کر آیا۔ باڈی میکر نے اپنے فن و ہنر کی تمام تر خوبصورتی اور رکھ رکھاﺅ ٹرک آرٹ کے اس شاہکار میں منتقل کی تھی۔ میں نے ٹرک کی پشت پر بنائی گئی تصویر کی طرف رجوع کیا، وہی تیس سال پرانے ایک ڈاکو کی تصویر کندہ تھی، جو دو زانوں بیٹھ کر خربوزہ کاٹنے کی مشق کر رہے ہیں اور اپنے سبز بے ہلالی مفلر کو گلے میں ڈال کرکیمرے کی آنکھ کے آرپار دیکھ رہے ہیں۔ میں نے یہی سوال پوچھا کہ آخر تصویر کی جگہ پر کسی اور کی تصویر بھی تو بنائی جاسکتی تھی۔بولے یہ شکر کریں کہ یہ تصویر مل گئی، ویسے بھی اس زمانے میں تو ہمیں کوئی ایسی ہستی نہیں ملتی جنہوں نے کوئی دم والا کام کیا ہو۔ میں نے یہی کہا کہ اب توہمارے گرد وپیش میں کئی نئے ہیروز موجود ہیں۔ بولے وہ کون ….؟

میں نے کہا کہ مرحوم ستار ایدھی صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں، جناب ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب جو روزانہ ہزار کے قریب مریضوں کا مفت ڈائلیسز کراتے ہیں ، یا پھر کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ لڑکی ملالہ یوسف زئی کی تصویر بنوا دیں۔ تھوڑے سے توقف کے بعد بولے، اس سے مجھے کیا ملے گا؟ یہ نہ تو پولیس افسر ہیں، نہ فوجی ہیں، نہ ایکسائز والے اور نہ ہی ڈاکو۔ جبکہ ہمارا واسطہ تو ان تینوں کے ساتھ پڑتا ہے۔ یہ اپنے قبیل کے عقیدت مندوں سے بیر نہیں رکھتے اور رعایت دیتے ہیں، محبت کرتے ہیں، چالیس کی بجائے اگر ساٹھ ٹن بھی ڈال لو بس ، سندھی پولیس تک پہنچتے ہی گلاب چانڈیو کے کیسٹ کی ذرا آواز اونچی کر دو، وہ ٹرک پر بنی تصویر کو دیکھتا ہے، آواز سنتا ہے اور موم ہو جاتا ہے۔

میں نے پوچھا ابھی جو لگایا ہے اس سے کیا مل رہا ہے؟ خربوزہ کاٹنے والا ایک رومانوی نوجوان جو ایک پولیس افسر کے ہاتھوں مارا گیا آخراس سے کس طرح کے قانونی، اخلاقی یا سماجی نتائج اخذ کرنے ہیں۔ بولے آپ کو پتا ہے کہ ہمارے دوسرے ٹرک کے پیچھے اسی پولیس افسرکی تصویر بنائی گئی ہے جس نے اس خوبصورت نوجوان ڈاکو کو شہید کیا۔ ایک قلیل لمحے تک میں تذبذب کا شکار ہوا، پھر پوچھا ! چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ اس مقتول ڈاکو سے آپ کو عقیدت ہے، اور اس کو قتل کرنے والے کے بارے میں آ پ کے کیا احساسات ہیں؟۔ کہا وہ بھی مجھے پیارا لگتا ہے، وہ بھی بہادر ہیں، نڈر ہیں، رعب و دبدبے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ پھر بتایا کہ دراصل یہ دونوں مہان ہستیاں ہمارے قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔ لوگ جب ان کو دیکھتے ہیں تو ان کے دلوں پر دھاک بیٹھ جاتا ہے، کہ ہم بھی والی وارث رکھتے ہیں، جڑی بوٹیوں یا چٹانوں نے ہمیں نہیں جنا ، آگے پیچھے ہے کوئی، وغیرہ وغیرہ۔

اس سے کم ازکم اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ جہاں ملکی سطح پر مخصوص قومی ہیروز تراشے جاتے ہیں، ان میں بہت کم ایسے ہیں جو سماجی بہبود، تعلیم و ترقی، امن اور صحت عامہ کیلئے سرگرم عمل ہوں۔خصوصا ًنوبل انعام کا حق دار بننے والا مرد ہو، عورت یا لڑکی ریاست کی طرف سے ایسے دھتکارے جاتے ہیں جس سے ان کی واپسی کے تمام تر امکانات دم توڑ دیتے ہیں، وہ عام و خاص کی نظر میں ایجنٹ، اسلام دشمن اور ملک دشمن ٹھہرا دیے جاتے ہیں۔

ملالہ یوسف زئی کے حالیہ عالمی اعزاز کو جس سرد مہری سے ریاستی اور کمرشل میڈیا نے کوریج دی، اس سے کم ازکم یہ تاثر ملتا ہے کہ عوام میں دہشت گردی سے لڑنے کی سکت کو کم کرتے کرتے ختم کردیا جائے، اور چند سو افراد کی مرضی و منشا پر ہزاروں سکول اور کالجز بند کردیے جائیں یا تباہ کر دیے جائیں، اور اگر کوئی نہتی بچی اپنے بنیادی حقوق کیلئے لڑے اور آواز بلند کرے تو وہ مار دیے جانے کی حق دار ٹھہرتی ہے اور اگر کہیں زندہ بچ جائے تو اس کے لئے ایسے حالات پیدا کردیے جائیں جو اسے ایک متبادل علامت کے طور پر ابھرنے سے باز رکھ سکیں تاکہ مخصوص استبدادی حالات کو تبدیل کرنے کی کوئی واضح اور مجسم تصویر دکھائی نہ دے اور جو دکھائی دے اسے پراپیگنڈے کے ذریعے نامکمل، غیر مسلم اور نامرد ثابت کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).