گلیوں میں پلنے والے بچے


(عبدالسلام)۔

شہر اقتدار کی محل نما کوٹھیوں کے سامنے سڑک کے کنارے کچھ بچے کوڑا جمع کررہے تھے۔ دو کم عمر بھائیوں کے ساتھ ایک ننھی پری بھی اس عمل میں شریک تھی اور بھائیوں کی مدد کر رہی تھی۔ وہ مل جل کر کوڑا ایک بوری میں ڈالتے تھے اور پھر بڑی مشکل سے کچرے سے لدی بوری ایک ریڑھی میں رکھ رہے تھے۔ میں کچھ دیر ان کو دیکھتا رہا پھر آفس کے کچھ دوستوں کو ساتھ لے کر ان کے پاس چلا گیا۔ دعا سلام کے بعد بچی نے اپنا نام شبو بتایا۔ میں نے مزید بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ جواب دینے کی بجائے مسلسل مسکرا رہی تھی۔ ریڑھی میں کچرے سے بھری بوریوں پر بیٹھی شبو کی مسکراہٹ معاشرے کی بے حسی اور اقتدار کے مزے لوٹنے والے حکمرانوں کے منہ پر کسی زوردار طمانچے سے کم نہ تھی۔ ہم نے بچوں کو کچھ تحائف دئیے جو کہ ان کے لئے بالکل غیر متوقع تھے۔ تحائف ملنے پر ان کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ مسکراتے چہروں اور چمکتی آنکھوں کے ساتھ پیار بھری نظروں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔لیکن ہمارے سر احساس ذمہ داری اور ندامت سے جھکے رہے کیونکہ ہم جانتے تھے کہ یہ وقتی خوشی مسئلے کا حل نہیں ہے۔

آج دنیا بھر میں سٹریٹ چلڈرن کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد گلیوں اور فٹ پاتھوں پر زندگی گزارنے والے بچوں کے حقوق کے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔ اور ان بے گھر بچوں کو بھی دیگر بچوں جیسی آسائشیں مہیا کرنا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 10 کروڑ بچے گلی، کوچوں اور فٹ پاتھوں پہ زندگی گزارتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً 15 لاکھ سے زائد بے گھر بچے موجود ہیں۔ سڑکوں پر آنے والے 94 فیصد لڑکے اور 6 فیصد لڑکیاں ہیں ان میں سے 56 فیصد بچے گھریلو تشدد اورغربت کے باعث گھر سے بھاگ نکلتے ہیں جبکہ 22 فیصد بچے مدرسوں اور تعلیمی اداروں میں سختی و تشدد کے باعث بھاگ کر سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ مختلف تحقیقی اندازوں کے مطابق سڑک پر رہنے والے 63 فیصد بچے جنسی زیادتی اور مختلف اقسام کے نشوں کی وجہ سے ایڈز اور ہیپاٹائٹس سمیت دیگر خطرناک بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایک حالیہ سٹڈی کے مطابق راولپنڈی اور اسلام آباد کے ایک سو آٹھ سٹریٹ چلڈرن کے حالات کا جائزہ لیا گیا۔ جن میں سے ایک سو ایک بچے وہ تھے جن کا فیملی سے رابطہ تھا جبکہ گلیوں میں پرورش پانے والے سات بچوں کو اپنی فیملی کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ سٹڈی کے اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ گلیوں میں زندگی گزارنے والے ان بچوں کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے۔ ان بچوں کی عمریں دس سال سے کم تھیں اور یہ روزانہ آٹھ سے بارہ گھنٹے تک کام کرتے تھے۔جبکہ ان کی اوسط آمدن چالیس سے ساٹھ روپے یومیہ تھی۔ ان میں سے بیشتر بچے بڑوں کے نا مناسب سلوک، ساتھ رہنے والے دیگر بچوں اور پولیس کے منفی رویے کا شکار ہوچکے تھے اور متعدد بیماریوں اور عمر کے مطابق جسمانی نشوونما نہ ہونے جیسے مسائل کا سامنا کررہے تھے۔

اکیسویں صدی کے پاکستان میں جہاں ڈیڑھ کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں وہاں پندرہ لاکھ سے زائد بچے گلی کوچوں میں پروان چڑھ رہے ہیں۔ ان معصوم بچوں سے جبری مشقت کروانا، مزدوری کروانا اور بھیک منگوانا معمول بن چکا ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔پاکستان میں بچوں کے حقوق کے قوانین ناکافی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جو قوانین موجود ہیں ان پر بھی عمل در آمد نہیں ہوتا۔

مختلف سماجی تنظیمیں اور بچوں کے حقوق کے نام پر فنڈز لینے والی این جی اوزفائیو سٹار ہوٹلوں میں سیمینارز، بحث مباحثے اور مختلف ایسی سرگرمیوں پر کروڑوں روپے لگا دیتی ہیں جس کا فائدہ کسی ایک سٹریٹ چائلڈ تک بھی نہیں پہنچ پاتا۔ یہ عجب تماشا ہے کہ ان بچوں کے نام پر لئے گئے کروڑوں کے فنڈ اس قسم کی غیرضروری تقریبات کی نذر کر دیے جاتے ہیں جبکہ متاثرہ بچوں میں کمی کی بجائے روز بروز اضافہ ہو تاجارہا ہے۔ ان اداروں کو بڑے بڑے پروگرام اور تصویری رپورٹس شائع کرانے کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں آنا ہوگا۔ گلیوں میں پلنے والے بچوں کے لئے ادارے قائم کرنے ہوں گے، ان کی تعلیم و تربیت کے ساتھ مناسب خوراک کا انتظام کرنا ہوگا۔تب ہی مسئلے کے حل کی طرف پیش رفت ہوگی۔ اس سلسلے میں انصار برنی ویلفیئر ٹرسٹ نے کچھ ادارے قائم کئے، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نے سٹریٹ چلڈرن کے لئے جنوبی پنجاب میں خصوصی سکولز قائم کئے جبکہ الخدمت فاو¿نڈیشن نے چائلڈ پروٹیکشن سنٹرز کے ذریعے ان بچوں کو سہارا دیا۔ یہ اور ان جیسے دیگر ادارے تحسین کے مستحق ہیں اور ان کی ہر ممکن مدد اور حوصلہ افزائی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان بچوں اور نوجوانوں کے مستقبل سے پاکستان کا مستقبل وابستہ ہے۔ اگر ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگ، سماجی تنظیمیں اور ملک کا ہر شہری ان بچوں کے مستقبل سے اسی طرح غافل رہا تو پورے ملک کا مستقبل داو¿ پر لگ سکتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مو¿ثر قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے ذریعے ان بچوں کے مسائل کے حل کے لئے ٹھوس لائحہ عمل بنائیں اور پاکستان کا ہر شہری اپنی حیثیت کے مطابق اس میں اپنا کردار ادا کرے۔ مجھے یقین ہے کہ ان بچوں کو روشن مستقبل دینے کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).