۔۔۔مولوی نے پرچم نبوی کو کاٹ کھایا؟


کسی سے دلیل کی بنیاد پر اختلاف کرنا، ہر کسی کا حق ہے لیکن کوئی کسی کے زاویہ نظر پہ قدغن نہیں لگا سکتا- روز اول سے واضح کیا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کے لئے ہماری حمایت ان کے سیکولر رویہ کی بنا پر ہے- (اور یہ بھی کہ اسلام کا یہ روشن پہلو اجاگر کرنا وقت کی ضرورت ہے)-

سوشل میڈیا پر جمعیت علمائے اسلام کے مولوی حضرات کو ایک نئی افتاد کا سامنا ہے- ہوا یوں ہے کہ جمعیت کے صد سالہ جلسہ کی بے مثال کامیابی پر (یا سو سالہ سالگرہ پر)، جمیعت کے جھنڈے کی صورت بنا ہوا ایک کیک کاٹا گیا ہے- کیک کاٹنے کی یہ رسم امام کعبہ اور مولانا فضل الرحمان صاحب نے مشترکہ طورپر ادا کی ہے- مخالفین نے اس تصویر پہ پھبتی کسی ہے کہ مولوی، پرچم نبوی کو کاٹ کر کھا گئے ہیں- ان کے طنز سے زیادہ ہمیں کٹھ ملاؤں کی بے بسی پر ترس آتا ہے کہ بعض تو اس فعل کو شرعاً درست ثابت کررہے ہیں اور بعض دوست، اس “ہندوانہ رسم ” کے ادا کرنے پر ا پنے قائدین کو خدا کے واسطے دے رہے ہیں-

محترمین! جب آپ لوگ ایک سیاسی پارٹی کے جھنڈے کو پرچم نبوی اور اسکے سیاسی نشان “کتاب” کو قرآن قرار دو گے تو کئی بار ماتھے کا پسینہ پونچھنا پڑے گا- یہ دھاری دار جھنڈا جو جلسوں میں لہرایا جاتا ہے،کیا یہ پرچم نبوی ہے؟ اسی طرح کے رویوں کا حامل، ہمارے یہاں ایک اور مذہبی طبقہ بھی ہے جو کہ اپنی کم دماغی کہ وجہ سے ایک سٹیل سٹیکر کو سچ مچ نبی کے نعلین سمجھ کر ماتھا ٹیکا کرتے ہیں- انہوں نے بھی حضور کے نعلین کا نقشہ کہیں سے پڑھ لیا اور اب سونے چاندی کا بنا ہوا ماڈل جوتا، سینہ پہ لگا کراس کو چوما کرتے ہیں- کیا نبی کا نعلین شریف، یہی دوانچ کا ماڈل ہے؟ بھائی، آپ نے ایک پارٹی بنائی اور اس کا جھنڈا ڈیزائن کرتے ہوئے ایک تاریخی پس منظر سامنے رکھا- بات ختم ہوگئی- دوسری پارٹیوں نے بھی اپنے جھنڈے بارے کوئی فلسفہ ضرور سامنے رکھا ہوگا- پھر الکشن کمیشن نے آپ کو کتاب کا نشان الاٹ کیا تو آپ نے اس کو بھی مذہبی بلیک میلنگ کا ذریعہ بنا دیا- یہ رویے، سیکولر رویئے نہیں ہیں-

واضح رہے کہ سالگرہ منانا اور اس پہ کیک کاٹنا، نہ ہندوانہ رسم ہے نہ عیسائی- یہ جدید دنیا کی خالص سیکولر رسومات ہیں- مغربی دنیا کو برتھ ڈے ڈاکومنٹ کرتے ایک صدی بھی نہیں ہوئی- کسی کی تاریخ پیدائش اوروفات یاد رکھنے کے چونچلے فارغ اقوام کا شغل ہیں اور خیر سے تاریخیں نکالنے کے فارسی و اردو قطعات رقم کرنا، برصغیر کے “ویہلے” اہل علم کی “ہابی” رہی ہے- پچھلی صدی تک یورپی اقوام کو کھانے کے لئے کیک دستیاب نہیں تھا تو کاٹ کاٹ کر منہ پہ ملنا کیسے وارا کھاتا؟ پس یہ ایک جدید سیکولر رسم ہے-

ماشاء اللہ پچھلے سال مولانا عبدالغفور حیدری نے کرسمس کیک کاٹا- اس کو یار لوگوں نے غیر مسلمین کی تالیف قلب کی حدیث سے درست ثابت کرنے کی کوشش کی جبکہ ہم نے کہا تھا کہ یہ سیکولر رویوں کو فروغ دینے کی سوچی سمجھی کوشش کی گئی ہے- اب سینیٹر طلحہ نے اس بلیک اینڈ وائیٹ کیک کا آرڈر دیا ہے تو یہ کار طفلاں نہیں تھا کہ ایکدم امام کعبہ کے سامنے سرپرایز پیش کردیا گیا- امام کعبہ کی ہر ایک تقریب کے ہر ایک جزو پہ غور وفکر کیا گیا ہو گا- ہم سمجھتے ہیں کہ جیسے جمعیت علماء کے سٹیج پر، ایک عیسائ بشپ کو صلیب سمیت پیش کرکے دنیا کے سامنے اپنا سیکولر چہرہ واضح کیا گیا اسی طرح، اس کیک کاٹنے کی رسم کو بطور خاص میڈیا کے سامنے پیش کا گیا- ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان صاحب بڑی باریک بینی سے اپنے طبقے اور جدید دنیا کے درمیان خیلج کو پاٹ رہے ہیں- ایک طرٖف وہ لبرلز کے وار کو دلیل اور سیاسی داؤ پیچ سے روکتے ہیں اور دوسری طرف، کٹھ ملاؤں کو اپنے عمل سے راہ اعتدال پہ لانے کی کوشش کیا کرتے ہیں- (وہ کٹھ ملا، جس نے عام انسانوں کے لباس، غذا، تکلم حتی کے سانس لینےکو بھی اپنے مخصوص مکتب فکر کی تنگنائے میں محبوس کرنے کی کوشش کی تھی)-

اسلامی بھائیو! ابھی تو برتھ ڈے کیک کاٹا گیا ہے- ابھی تو تالیوں کی گونج میں “ہیپی برتھ ڈے” کے نعرے لگنے بھی رہتے ہیں- کس کس چیز پہ اپنا خون جلاؤ گے بھائی- ہم تو دوستوں سے کہتے ہیں کہ خود ساختہ مذہبی رویوں سے نکل کر سیکولرزم کی طرف آؤ اور اصل دین کو دلیل سے واضح کرو تاکہ دنیا تمہاری بات سنے- بصورت دیگر، کسی بھی مذہبی جماعت میں نہیں چل سکتے- جماعت اسلامی کی بھی شرعی رقص کی ویڈیوز موجود ہیں- جب سراج لالہ سے ان کے اتحادی یعنی پی ٹی آئی کے چار ماہا مخلوط میوزک کنسرٹ کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو کس معصومیت سے فرمایا تھا کہ اسلام میں موسیقی کی گنجائش بنتی ہے- استاد الاساتذہ محترم سمیع الحق صاحب، عمران خان کے پہلو میں کھڑے ہوکر پولیو قطرے مہم کا افتتاح فرما رہے ہیں- کیا شیخ الحدیثوں کا اب یہی کام رہ گیا کہ پولیو اشتہاری مہم کی زینت بنیں؟- چلیں، سراج لالہ اور مولانا سمیع الحق صاحب تو پھر بھی جمہوری پارٹیاں رکھتے ہیں، ادھر جمہوری کفریہ نظام پہ لعنت بھیجنے والا ، جامعۃ الرشید کا خلافتی ٹولہ بھی سیکولرزم کی پرچھائیاں پسند کرتا ہے مگر پردے کی اوٹ میں- کہاں تو علماء اور شیوخ الحدیث کو مدارس میں بلا کر بصیرت سمیٹی جاتی تھی اور کہاں تو چوہدری افتخار جیسوں کو مدرسے میں بلا کر علوم نبوی کے طلباء کو دانش و نصیحت سکھائی جاتی ہے- وہ حدیث کہاں گئی جس میں بدعتی کی تعظیم کو دین ڈھانے سے تشبہیہ دی گئی؟ یہ وہی چوہدری افتخار ہیں جنہوں نے سود کے خلاف درخواست کو رد کردیا تھا- موصوف کو حال ہی میں جامعۃ الرشید میں مہمان خصوصی بنایا گیا ہے- (واضح رہے کہ خاکسار کو بدعت وغیرہ بارے مسئلہ نہیں بلکہ خود کٹھ ملاؤں کو ہے )- کہاں تو تبلیغ والے کہتے تھے کہ اخبار مت پڑھو کہ اس میں غیبت ہوتی ہے اورکہاں جامعتہ الرشید والے جرنلزم کے کورس کروا رہے ہیں- خود تبلیغی جماعت، جو فانی دنیا سے دل لگانے پر وعیدیں سناتے نہیں تھکتی تھی ،وہ ہزاروں روپے مہنگے فیشنی مگر “سنت کرتے” کے رواج پہ الحمدللہ کہتے نہیں تھکتی- تو بھائی، جس دین کی بات کٹھ ملا کیا کرتے ہیں،وہ صرف فضائل صدقات میں ہی بند ہے- جیتی جاگتی دنیا میں رہنا ہے تو غذا میں پیزا و برگر، معاشرت میں پتلون و کرسی اور معاملات میں سیکولرزم کو گوارا کرنا ہی پڑے گا- برتھ ڈے وغیرہ کو کافرانہ رسومات کہنے والوں کو معلوم ہو کہ جمہوری پارلمنٹ میں کرسی لینا بھی مغربی رسومات میں سے ہے-

البتہ، مولانا فضل الرحمان، سیکولرزم مخالف بیانات ضرور دیتے رہتے ہیں اور اس سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں کہ ہم بیانات کو نہیں عمل وکردار کو دیکھا کرتے ہیں- (ان بیانات کو ہم ایک خاص طبقے کے خلاف سمجھتے ہیں جن کو ہم لبرل فاشسٹ کا نام دیتے ہیں)- صد سالہ میں مولانا نے بیان دیا کہ ہم سیکولرزم کے خلاف ایک قوت ہیں- اس پر کٹھ ملاؤں نے وجد میں آکر کہا کہ سیکولرزم کا نام لینے والوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیئے- اس کیک کاٹنے کی رسم پہ ہم ان ملاؤں کویہ نہیں کہیں گے کہ کیا ایک بالٹی پانی کافی رہے گا؟ بلکہ یہ عرض کریں گے کہ آپ اس فعل بد کے خلاف اپنا سوشل میڈیا جہاد مزید تیز کردیں-

 آپ کا احتجاج پرزور ہوا تو انشاء اللہ جلد ہی مولانا، سیکولرزم کے خلاف ایک اور بیان داغ دیں گے جس سےنہ صرف آپ کو ٹھنڈ پڑ جائے گی بلکہ ہم پر وار کرنے کا موقع بھی مل جائے گا- جبکہ ہم صرف یہ گنگنایا کریں گے کہ-

ہم ہنس دیئے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ ترا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).