جے یو آئی کا صد سالہ اجتماع: تلخ حقائق، کڑوے سوالات (1)


جے یو آئی کے صدسالہ اجتماع کی مناسبت سے اس موضوع سے متعلق اجتماع کے انعقاد سے پہلے بھی خاکسار نے اپنے فیس بک وال پر کچھ عرض کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا مگر ایک عزیز دوست نے جوابی پوسٹ لکھ دیا کہ اس موقع پر ’اس قسم‘ کی بحثوں کو چھیڑنا بالارادہ سازش نہ سہی ، مگر غیرارادی سازش کا حصہ ضرور بننا ہے جس کے بعد میں نے اس موضوع کو ادھار رکھنے کا فیصلہ کیا چونکہ اعتماد اور احترام کا تعلق استوار ہوتے ہوتے مدت گزرجاتی ہے اس لیے ان نازک آبگینوں کو ٹھیس پہنچنے میں یہ نابکار کچھ حساس واقع ہوا ہے۔ مگر اب جب اجتماع کا انعقاد ہوچکا تو اجتماع کی رپورٹوں اور مشاہدات کے بعد وہ موضوع ہی بدل گیا جس پر خامہ فرسائی کرنے کی ضرورت پہلے محسوس ہوئی تھی۔

ایک اعتراض جو عمومی طور پر اجتماع کے انعقاد کی تاریخ پر کیا جارہا تھا وہ اجتماع کا وقت تھا کہ 1919ء میں تشکیل پانے والی جمعیت علمائے ہند کی تاسیس کے سوسال تو 2017ء کی بجائے 2019ء میں پورے ہونے ہیں پھر 2017ء میں اس کی صدسالہ تقریبات کا انعقاد کس بنیاد پر کیا جا رہا ہے لیکن اس کا جواب یہ دیا گیا کہ سوسال ہجری قمری کیلنڈر کے حساب سے پورے ہو رہے ہیں۔ یہ وضاحت واقعی قابل قبول ہے مگر اس صورت میں پھر صرف یہ کرنا چاہیے تھا کہ اجتماع کی تاریخ بھی ہجری قمری تقویم کی حساب سے 9 /10/11 رجب المرجب 1438 بتائی جاتی نہ کہ 2017ء کے اپریل کی 7/8/9 تاریخیں۔

دوسرا سوال یہ تھا کہ جے یوآئی کس فکر اور سوچ کا تسلسل ہے؟ اس جمعیت علمائے اسلام کی جس کے بارے میں 5 دسمبر 1945 کو مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ رحمتہ اللہ نے اپنے فتاویٰ کفایت المفتی کی جلد نہم میں لکھا ہے کہ یہ غیر علما کی کوشش سے جمعیت علمائے ہند کے خلاف اور مقابلے کے لیے بنائی گئی ہے اور اس کا مقصد لیگ کی تقویت، جمعیت کی کمزوری اور مسلمانوں کو دھوکہ دے کر انگریزوں کی مدد کرنا ہے یا پھر جے یوآئی اس جمعیت علما ئے ہند کا تسلسل ہے جس کے بارے میں 21 مئی 1968ء کو مفتی تقی عثمانی صاحب کی جانب سے محمدشفیع رحمتہ اللہ کی تائید کے بعد جاری ہونے والے فتاویٰ عثمانی جلد سوم میں یہ فتویٰ لکھا گیا ہے کہ موجودہ جمعیت وہ جمعیت نہیں ہے جس نے قیام پاکستان کی جدوجہد کی تھی، اگر جے یوآئی جمعیت علمائے ہند کا تسلسل ہے تو پھر ان کی فکر، سوچ اور پالیسی میں جمعیت علمائے ہند کے اثرات کہاں ہیں؟ اور اگر جمعیت علمائے اسلام کا تسلسل ہے تو پھر جمعیت علمائے ہند کی صدسالہ تقریبات سے جے یوآئی کا کیا تعلق ہے؟ تو جے یوآئی جو کہ نہ تو جمعیت علمائے ہند کی فکر کا تسلسل ہے اور نہ ہی 1945 میں علامہ شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں بننے والی جمعیت علمائے اسلام کا، تو کیا پھر جے یوآئی اپنی فکر وپالیسیوں کی بنیاد پر ان دونوں جماعتوں سے ایک بالکل مختلف تیسری جماعت ہے جس کے نام کے ساتھ 2002ء میں الیکشن کمیشن کی رجسٹریشن میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر فضل الرحمن گروپ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے؟

صد سالہ اجتماع کے حوالے سے جو سب سے بڑی توقع کی جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ شاید اس فورم سے مذہبی طبقے کو کوئی نیا اور واضح اجتماعی لائحہ عمل دیا جائے گا جس سے دنیا بھر میں مذہب، مذہبی تعلیمات اور مذہبی طبقے کے بارے میں قائم کردہ شدت پسندی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ اگرچہ اس اقدام سے اس وقت کسی خاص نتیجہ خیزی کی امید نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ بات اب بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ جو خونریزی، تباہی اور بربادی مسلم معاشروں کا مقدر ہے اسے اب کسی صورت ٹالا نہیں جا سکتا۔ کسی بیانیے، فتویٰ، اعلامیے اور قرار داد سے اب کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ دور ہر فکر اور آئیڈیالوجی کی تاریخ میں آتاہے جب اس فکر کا اختیار اس کے اصل شارحین سے اس کو ہائی جیک کرنے والی سرکش قوتوں اور زورآور عناصر کو منتقل ہو جاتا ہے۔ سٹالن کے کارناموں سے لینن کبھی متفق نہ ہوتے، ایران میں خمینی کے انقلاب کی کامیابی کے بعد 23 اپریل 1979 سے لے کر 8 جنوری 1980 تک کے تقریباً 8 مہینوں کے دوران صف اول کے رہنماوں کو قتل کر دیے جانے کا ایک پراسرار سلسلہ جاری رہا ۔اس دوران مرتضیٰ مطہری جیسی شخصیات کو قتل کیا گیا جسے خمینی نے ان کی جدوجہد و خدمات کی وجہ سے اپنے ’عزیز فرزند‘ کا لقب دیا تھا اور بعد میں ایران کے صدر، وزیر خارجہ اور مصالحتی کونسل کے سربراہ بننے والے ہاشمی رفسنجانی کو اسی دوران ان کے گھر میں گھس کر خنجروں کے وار کرکے قتل کر دیا گیا، یہ معمہ مذہبی حکومت کے لیے درد سر بن گیا ۔اپنے تمام تر ذرائع استعمال کرنے کے باوجود انہیں قتل کی ان وارداتوں کے پیچھے کسی منظم گروہ یا ملک کا سراغ نہیں مل رہا تھا لیکن پھر اتفاقاً کسی دوسرے مقصد کے لیے سروے کرنے والی ایک سرکاری ٹیم کو ایک مکان میں غیر معمولی نقل وحرکت اور افراد کی موجودگی کا شبہ ہوا۔ جب اس مکان کی ریکی کی گئی تو یہ شبہ یقین میں بدل گیا اور مکان پر چھاپہ مار کر تقریبا ً75 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ اس گروہ کا سرغنہ اکبر گودرزی نامی شخص ہے جوکہ خود بھی مذہبی عالم تھا اور گرفتار ہونے والے افراد میں شامل تھا۔ یہ لوگ ڈاکٹرعلی شریعتی کی فکر سے متاثر تھے۔

شریعتی کی فکر میں تشدد اور ہتھیار اٹھانے کا تصور دور دور تک نہیں ملتا لیکن ایک تو ان کی تقریروں میں ملائیت ( ایرانی اصطلاح میں آخوندازم ) کے خلاف اتنا نفرت ابھارا گیا ہے کہ ان کے پیروکاروں کے لیے مذہبی علما کا وجودہی ناقابل برداشت ہو گیا تھا اور دوسرا یہ کہ شریعتی نے اپنے لیکچرز میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کی زاہدانہ اور سادہ طرز زندگی کو اتنا آئیڈیلائز کیا تھا جس کی وجہ سے ان کی فکر سے متاثر اس گروہ کے لیے کسی ایسے شخص کو مسلمان تصور کرنا بھی مشکل تھا جو کسی لگژری گاڑی میں گھومتا ہو یا کسی بڑے مکان میں رہتا ہو۔ اگر علی شریعتی زندہ ہوتے تو اپنی فکر کی اس تعبیر واطلاق سے خود بھی دم بخود رہ جاتے۔ اگر شریعتی خود بھی اپنی فکر کی اس تشریح سے اختلاف کرتے تو شریعتی کو پڑھنے کے نتیجے میں ان لوگوں کی جو ذہنیت بن گئی تھی اس میں خودشریعتی کو بھی شاید واجب القتل سمجھا جاتا۔ لہٰذا ان معاملات میں کسی بیانیے اور اعلامیے کی افادیت صرف اس وقت تک ہوتی ہے جب تک معاملات واقعی معروف مذہبی و سیاسی قیادت کے کنٹرول میں ہوں۔ مذہب یا کوئی بھی دوسری آئیڈیالوجی ایک آلے کی حیثیت سے نہ بین الاقوامی استعماری کے ہاتھوں میں علما کی تائید کے بغیر آ سکتا تھا اور نہ ہی کوئی ایسا گروہ وجود میں آتا جو علمائے دین کی ہدایت وفتویٰ کے بغیر کسی خود سرانہ راستے پر چل پڑتا مگر بدقسمتی سے مجموعی طور پر مذہبی قیادت بروقت ایسی دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کرسکی۔

افغانستان میں سب سے پہلے جہاد کا فتویٰ مولانا مفتی محمود رحمتہ اللہ نے دیا تھا۔ یہ فتویٰ انہوں نے اکتوبر 1979 میں دیا تھا اور اپنی علالت کے باعث بڑے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن کو جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں منعقدہ علما کے جرگے میں بھجوا کر وہاں افغانستان میں جہاد ومزاحمت اور ہجرت کے باقاعدہ شرعی جواز کا اعلان کیا گیا تھا ( ماہنامہ الجمیعت راولپنڈی اکتوبر 1999 )۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اکتوبر 1979 تک تو افغانستان پرسوویت یو نین نے حملہ اور جارحیت بھی نہیں کی تھی پھر مفتی صاحب کا فتویٰ کس کے خلاف تھا؟ کیا مفتی صاحب کچھ خاص حالات میں ریاست کے خلاف خروج کو جائز سمجھتے تھے؟ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ فتویٰ مفتی صاحب کا ذاتی فتویٰ تھا اور اس کا جے یوآئی سے بحیثیت جماعت کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ جے یوآئی کے امیر اس وقت مفتی صاحب نہیں بلکہ مولانا درخواستی تھے اور پھر مفتی صاحب کا اس فتویٰ کے اعلان کے لیے کسی جماعتی عہدیدار کے بجائے اپنے صاحبزادے کو بھجوانے سے بھی اس امر کو تقویت ملتی ہے۔ لیکن اس حوالے سے ایک عجیب صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک طرف مفتی محمود رحمتہ اللہ افغانستان میں جہاد کا فتویٰ دے رہے ہیں اور دوسری طرف اسی دوران کابل میں خود ساختہ جلاوطنی گزارنے والے اجمل خٹک اپنی ذاتی ڈا ئری میں لکھتے ہیں کہ آج مجھے پاکستان سے مولانا مفتی محمود کا ایک خط موصول ہوا ہے جس میں انہوں نے مجھے اپنی طرف سے انقلاب کے رہنماوں کو ( انقلاب کی کامیابی پر ) مبارکباد پیش کرنے کا کہا ہے۔ مولانا زاہد الراشدی کے بقول حضرت مفتی محمود اور مولاناغلام غوث ہزاروی کے درمیان اختلافی امور میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ہزاروی صاحب افغان جہاد کو امریکی مفادات کی جنگ سمجھ رہے تھے جبکہ مفتی صاحب اور ان کے موقف کے حامیوں کی دلیل یہ تھی کہ کفار نے ایک اسلامی ملک پر جار حیت کی ہے حالانکہ جس جمعیت علمائے ہند کے قیام کی سوسال پورے ہونے کی تقریبات جے یوآئی منارہی تھی اس جماعت کا قیام ایسے حالات میں عمل میں لایا گیا تھا جب انگریز خود ہمارے اس خطے پر قابض تھا مگر اس کے باوجود جمعیت علمائے ہند نے اپنی تاسیس کے بعد جدوجہد کا جو لائحہ عمل اختیار کیا تھا اس کے بنیادی اجزا تشدد، خفیہ سرگرمیوں اور آزادی کے لیے غیر ملکی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کو مکمل طور پر ترک کر دینا تھا۔

اس کے بعد جہاد کا دوسرا مرحلہ افغانستان میں تحریک طالبان کا ظہورتھا ۔اس تحریک کی بھی جے یوآئی ہر لحاظ سے حامی رہی۔ گزشتہ ہفتے جس اضاخیل میں جمعیت کے قیام کا صدسالہ منایا جارہاتھا اپریل 2001 میں یہاں سے چند ہی کلو میٹر کے فاصلے پر واپڈاکالونی تارو جبہ میں ’ ڈیڑھ سو سالہ خدمات دارالعلوم دیوبند‘ کے عنوان سے تین روزہ تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں پوری عقیدت کے ماحول میں ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے امیرالمومنین ملا محمد عمر کا صوتی پیغام مجمع کو سنایا گیا تھا۔ پھر 2000ء میں قندھار میں عیدالاضحی کی اس نماز میں شرکت اور اپنے قائد کا خطاب سننے کے لیے توہم خود بھی دوستوں کے ایک گروپ کی صورت میں قندھار گئے تھے جس کی امامت امیر المومنین صاحب نے کرانی تھی۔ نماز عید کے اس بڑے اجتماع میں جب مولانا فضل الرحمن صاحب کی تقریر جاری تھی اور اسی دوران ملا محمدعمر مجاہد مرحوم بھی عیدگاہ پہنچ گئے جس پر مولاناصاحب فرمانے لگے کہ یہ عجیب نیک بختی کا اتفاق ہے کہ ایک طرف میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓکا ذکر کر رہا ہوں اور عین اسی موقع پر امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد بھی عیدگاہ میں تشریف لائے۔ جے یوآئی کی صفوں میں صرف مولانا شیرانی کا اس زمانے میں یہ موقف تھا کہ افغانستان میں افغانوں کے ایک دوسرے کے خلاف اس جہاد سے بیرونی قوتوں کو افغانستان میں فوجی مداخلت کا ماحول اور جواز مل جائے گا اور یہ کہ مدرسوں کے طلبا کو ان کے والدین کی اجازت کے بغیر پک اپ گاڑیوں میں بھر بھر کر جنگ میں جھونکنا ان معصوم طلبا کے ساتھ ظلم اور ان کے والدین کے ساتھ خیانت ہے مگر مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں 7 اگست 1999ء کو اختتام پذیر ہونے والے جے یوآئی کے تین روزہ مرکزی اجلاس کے فیصلوں کا جو سرکلر 4 ستمبر 1999ء کو جاری کیا گیا اس میں مولانا شیرانی کو براہ راست مخاطب کیا گیا تھا کہ ’ جماعت کی صفوں میں طالبان کی حمایت کے لیے موجود’ گرم جوشی‘ کے برعکس اس حوالے سے آپ کی ’ سرد مہری‘ بدستور موجود ہے اور ہماری معلومات کے مطابق مولانا شیرانی مرکزی فیصلے کے باوجود جا بجا اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں جو جماعتی نظم کے خلاف ہے چنانچہ مرکزی مجلس عاملہ مولانا شیرانی کو اپنی روش تبدیل کرنے کی ہدایت کرتی ہے‘۔

ان تمام حالات کو مد نظر رکھنے کے بعد اب جب مولانا فضل الرحمن صاحب کے بیانات سامنے آتے ہیں کہ میرے مدارس کے طلبا کو کس نے استعمال کیا، کس نے انہیں جنگ کی ٹریننگ دی، کس نے انہیں راکٹ لانچر کا استعمال سکھایا، توان سوالات کا جواب تو ہم نہیں دے سکتے، نہ ہی ہمیں یہ علم ہے کہ حضرت قائد جمعیت یہ سوالات کس سے پوچھ رہے ہیں۔ البتہ ان بیانات سے اتنی بات ضرور واضح ہورہی ہے کہ مولانا صاحب اس الزام کی تصدیق کر رہے ہیں کہ واقعی مدارس اور ان کے طلبا استعمال ضرور ہوئے ہیں۔ مولانا صاحب کے استفسار کا رخ جس جانب ہے یہ تو ان کے مخاطب لوگ خود سمجھ رہے ہوں گے اس لیے ان سوالات کا جواب بھی وہی دے سکتے ہیں مگر مدرسے کا ایک طالب علم تو خود مولاناصاحب سے پوچھنا چاہتاہے کہ حضرت! آپ کے علم میں یہ بات کب آئی ہے کہ طلبا کو کوئی اور استعمال کر رہا ہے۔ استعمال کرنے والے آپ کے مجرم ضرور ہوں گے لیکن ہمارے مجرم تو وہ نہیں ہیں ہمارے پاس نہ تو کوئی میجر آیا تھا نہ کوئی بریگیڈیئر، نہ پولیس کا کوئی ایس ایچ او اور نہ ہی لیویزفورس کا کوئی خاصہ دار اور رسالدار۔ ہمارے پاس تو آپ آئے تھے،آپ کی جماعت کے مرکزی ذمہ داران آئے تھے، آپ کے ’ شانہ بشانہ‘ اور ’ مورچہ بہ مورچہ‘ لڑنے کی خون گرما دینے والی تقریریں آئی تھیں تو کیا بطور ’ تبرک‘ رکھی ہوئی ان تقریروں کو اب ہم بطور ’ ثبوت‘ سنبھال کر رکھیں؟ جب آپ کہتے ہیں کہ سیاست انبیا کرام علیہم السلام کا مشن ہے تو کتنے ہی انبیا اپنے مشن کے راستے میں قتل کردیئے گئے، انبیا کے مشن کی وراثت ظاہر ہے پروٹوکول نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔

صدسالہ اجتماع میں مولانا صاحب نے دہشت گردی کے اسباب بیان کرتے ہوئے اس کا حل مسلم ممالک سے قابض افواج کا انخلا تجویز کیا ۔ان کا فرمانا تھا کہ ریاستی دہشت گردی ( غیرملکی افواج کا مسلم ممالک پر حملہ اور وہاں ان کی موجودگی ) ہی بدامنی کا بنیادی سبب ہے۔ یہ بات واقعی درست اور حقیقت پر مبنی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ان غیر ملکی حملہ آوروں کو حملے کا جواز کس نے مہیا کیا تھا اور اب ان کی مستقل موجودگی کے جواز کے لیے وہ بہانہ کیا بنا رہے ہیں؟ غیر ملکی طاقتوں کا کہنا یہ ہے کہ جب تک ایک دہشت گرد موجود ہے ہم انخلا نہیں کر سکتے اور ان کی مزاحمت کرنے والوں کا موقف یہ ہے کہ جب تک ایک بیرونی فوجی موجود ہے ہم جہاد نہیں چھوڑ سکتے تواس گول چکر سے باہر نکلنے کا راستہ آخر ہے کونسا؟

(جاری ہے)

 http://www.humsub.com.pk/59916/azizi-achakzai-16/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).