جمیعت علمائے اسلام کی طاقت کا مظاہرہ   


جمیعت علما کا صد سالہ یوم تاسیس ہر لحاظ سے کامیاب رہا۔ حاضری کے حوالہ سے یہ ملک کے بڑے طاقت کے مظاہروں میں سے تھا۔ مقاصد کے اعتبار سے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ مولانا فضل الرحمٰن کا مطمع نظر کیا تھا؟ ان کی پارٹی میں بھی شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ صرف اندرون ملک ہی نہیں، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی دور رس اور گہرے اثرات مرتب ہوں گے، جن کا فائدہ مولانا کو تو ہوگا ہی، لیکن دنیا پھر میں پھیلا ہوا مسلک دیوبند، عالمی اسلامی سیاسی قوتیں، اور ریاست پاکستان بھی مستفید ہو ں گے۔ اس اجتماع کو اگر مولانا کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ بھی کہا جائے تو بھی غلط نہیں۔

یہ المیہ بہر حال موجود ہے کہ پاکستانی میڈیا اس اجتماع کی اہمیت کااندازہ لگانے میں نا صرف ناکام رہا بلکہ اس کی صحیح منظر کشی تک نہ کرسکا، جس کے سبب جے یو آئی کا کارکن مزید بدگمان ہوا ہے۔ وجوہات دو ہیں اول یہ کہ میڈیا سیاسی فرقہ واریت اور مفاد پرستی کا شکار ہے۔ نواز لیگ، تحریک انصاف اور عسکری فوجداروں میں تقسیم ارباب دانش کی فکری اڑان صرف رزق روٹی تک ہے۔ اس میں بھی صرف لیڈر کے کانوں کو بھلی لگتی بات بات سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ ورنہ سیاسی تجزیہ نگاروں کے لئے اسے نظر انداز کرنا خود ان کے مفاد میں نہیں۔

دوسری بڑی وجہ جے یو آئی قیادت کی میڈیا ٹیم کا غیر پیشہ وارانہ رویہ ہے جو تین دن کے اجتماع کی کوئی ایک ڈھنگ کی تصویر تک جاری نہیں کر پائے۔ صرف کانفرنس پر کیا موقوف ان کی بے اعتنائی کا عالم تو یہ ہے کہ ملک میں میڈیا سنٹر سمجھے جانے والے کسی شہر میں جے یو آئی کا کوئی باقاعدہ میڈیا آفس تک نہیں۔ بیٹ رپورٹروں کومعمول کی کوریج کے لئے جو پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اس کی ایک الگ داستان ہے۔ یہ کہہ کر کہ ہم زیادہ کوریج چاہتے ہی نہیں تھے شرمندگی تو مٹائی جا سکتی ہے، حقیقت پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔

مولانا کی جانب سے طاقت کے اس مظاہرہ کو جمیعت علمائے کے 1919 کے اس اجتماع سے ملا کر دیکھنا چاہئے جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ ”مسلح جدو جہد سے کامیابی ممکن نہیں، اب ہم اپنا میدان تبدیل کرتے ہوئے سیاسی میدان میں آزادی کی جدوجہد کریں گے”۔ آج بھی حالات مختلف نہیں۔ دیوبندیت اور عسکریت گڈ مڈ ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس میں اپنوں کی عاقبت نااندیشی کو بھی کم دخل نہیں۔ یہ اجتماع کامیابی سے اعلان کر گیا کہ ”ہم عسکری نہیں، سیاسی قوت ہیں”۔ اقلیتی قیادت کو دعوت دینے اور سٹیج پر باعزت مقام دینے سے بھی کئی ایک غلط فہمیاں ہی دور نہیں ہوئیں تعاون اور برداشت کے کئی نئے امکانات بھی پیدا ہوئے ہیں۔ عالمی برادری متوجہ ہوئی ہے اور بین المذاہب ہم آہنگی کا چورن بیچنے والی کئی دکانیں بند ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ دوسری جانب دیوبندی مکتب فکر کے لئے ماضی کے ملبہ سے نکل کرمشترکات کی بنیاد پر اکٹھا ہونے اور خطہ کی ترقی میں پر امن کردار ادا کرنے کا موقع بن سکتا ہے اور مولانا کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ پوری دنیا سے اس کمیونٹی کے قائد ہونے کی حیثیت کو کیش کروائیں، سمیع الحق کو دعوت نہ دینے میں بھی یہی حکمت کار فرما دکھائی دیتی ہے۔

وصی بابا نے درست کہا کہ آنے والے الیکشن میں کے پی اور بلوچستان میں مولانا کی راہ روکنا شاید بہت مشکل ہوگا، لیکن مرکز میں بھی انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ البتہ پنجاب کے بارے میں شاید مولانا خود بھی سنجیدہ نہیں، اس بات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر انکار نہیں کہ جس دن مولانا نے جے یو آئی کو پختون خوا سے پورے پاکستان کی پارٹی بنا دیا انہیں پنجاب سے بھی حیران کن رسپانس مل سکتا ہے، مگر ابھی شاید یہ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ان کی منزل کیا ہے؟ اس کا اندازہ اجتماع گاہ میں دئے گئے ٹی وی انٹرویو میں مستقبل کا حکمران فضل الرحمٰن کے نعروں اور مولانا کے قہقہے میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔

گزشتہ دنوں طاقت کا ایک مظاہرہ اور بھی ہوا جب امام حرم علما کونسل کے سربراہ طاہر اشرفی کے گھر چلے گئے اس نے مخالفین کے غبارے سے ہو انکال دی۔ بدھ کے روز اسلام والی کانفرنس بھی انتہائی کامیاب کہی جا سکتی ہے باوجود اس کے کہ لوگوں کو بلانے کے لئے اتنا زور طاہر اشرفی نے نہیں لگایا جتنا ان کے مخالفین نے لوگوں کو روکنے کے لئے لگا دیا، یہاں تک کہ سعودی شاہ کو خط لکھنے کی غیر سفارتی اور نا مناسب حرکت تک کی گئی اس کے باوجود سعودی مہمانوں کی شرکت اس بات کا اعلان رہی کہ کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ مقامی طور پر بھی قابل ذکر بڑے علما ان کے ساتھ ہیں، سمیع الحق دور جا ہی نہیں سکتے، جامعہ اشرفیہ کے ترجمان ان کی میڈیا گفتگو میں ساتھ تھے۔ یقینا ً جامعہ کی اجازت کے بغیر نہیں تھے۔ پیر اسداللہ فاروق کا اسلام آباد کانفرنس میں آنا اعلان ہے کہ جامعہ منظور الاسلامیہ بھی ان کے ساتھ ہے اس کے علاوہ بھی کئی ایک بڑے نام دیکھے سنے گئے۔ ان کے خلاف بغاوت در اصل ریال خور مافیا کے ان کرداروں کی انتقامی کارروائی تھی جو تحفظ حرمین کی تحریک میں عمل کے معیار پر پورا نہ اتر سکے، دکانداری بند ہونے کا خوف لاحق ہوا تو بڑی خوبصورتی سے صاحبزادہ زاہد قاسمی کو استعمال کر گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہی فنکار کل پھر طاہر اشرفی کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور صاحبزادہ زاہد قاسمی صاحب حیرت سے پوچھتے پھریں گے کہ’’ دھکا کس نے دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).