ملالہ کا حقیقی جرم کیا ہے؟


ملالہ یوسفزئی اگر سوات کے ایک سکول ماسٹر کی بیٹی نہ ہوتی اور لاہور کے گلبرگ، کراچی کے ڈیفنس یا پشاور کے حیات آباد میں رہنے والے کسی ریٹائرڈ جنرل، سفیر یا کسی سابق سیکرٹری کی بیٹی ہوتی یا کسی وزیر یا مشیر کی صاحبزادی ہوتی یا کسی جاگیردار، قبائلی سردار یا پھر کسی کاروباری گھرانے میں سونے کا چمچ منہ میں لئے پیدا ہوتی تو کیا اس کی اتنی ہی مخالفت ہوتی جتنی اب ہورہی ہے؟ سوات کے پشتنی یوسفزئی بھی شانگلہ سے آکر یہاں علم کی روشنی پھیلانے والے ملالہ کے باپ کو اپنا حصہ نہیں سمجھتے اور ملالہ کو ملنے والی تکریم، مقبولیت اور عزت کو اپنے حق پر ڈاکہ سمجھتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک، فورم سمیت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے جہاں اپنے معصوم ،دلفریب اور خود اعتمادی سے بھر پور خطاب سے دنیا کی تقدیر کے فیصلے کرنے والے پتھر دلوں کو رلادینے والی اس دنیا کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ عالمی شہزادی کا ذکر سوات میں نہیں ہو سکتا اور خیبر پختون خوا میں بھی نوجوانوں کے ووٹ اور تبدیلی کے نعرے سے بننے والی حکومت نے ملالہ کا نام لینے کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے جس کے کفارہ میں نام لیوا کی جان بچنے کی ضمانت نہیں ۔

جب میں نے ہوش سنبھالا تو اس وقت دنیا کے لوگ پاکستان کو بے نظیر بھٹو کے ملک کے طور پر جانتے تھے اور اب پاکستان کو ملالہ کا ملک کہا جاتا ہے۔ جب ملالہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے سفید بے نظیر شال اوڑھ کر خطاب کیا تو اس دن شہید بے نظیر بھٹو اپنے لوگوں میں واپس آگئی تھی اور نوجوانوں کو ایک امید کی کرن نظر آنے لگی تھی۔ سوات کے مرغزاروں سے اٹھنے والی اس معصوم بچی نے ایک قلم، ایک کتاب اور ایک استاد کے الفاظ کے ساتھ دنیا کو بدل دینے کا ایسا آفاقی پیغام دیا کہ اس کی گونج چہار سو پھیل گئی۔ سترہ سال کی ملالہ کی آب بیتی پر ہجو گوئی کرنے والے نکتہ چین جب کچھ نہ کر پائے تو نصیحتوں پر اتر آئے جو کیا بنے بات جہاں بات بناۓ نہ بنے کے مصداق اپنا ہی مذاق خود بن گئے۔

ملالہ کی مخا لفت کرنے والوں کی بڑی تعداداس کے حاسدین کی ہے جو اس معصوم کی بد گوئی میں تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں۔ کچھ ان کا تقابل ایک کم سن مائکرو سافٹ انجنیئر سے کرتے ہیں تو کچھ ان کو امریکہ کی جیل میں قید ایک اور خاتون کے مقابلے میں لے کر آتے ہیں۔ دراصل ان لوگوں کا مقصد مقابل کا احترام کم اور ملالہ کے قد کو گھٹانا زیادہ ہوتا ہے جو ان کے بس کی بات نہیں۔ جب کچھ بن نہیں پاتا توحاسدین سازشی کہانیوں پر اتر آتے ہیں جو پاکستان جیسے تفریح سے خالی ملک میں اچھی خاصی مقبول بھی ہو جاتی ہیں اور لوگ فارغ وقت میں ان لطائف سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ایسی ہی ایک لکھی ہوئی طنزیہ کہانی اتنی مقبول ہوئی کہ لوگ اس کوبھی حقیقی سمجھ بیٹھے۔

نام نہاد شرفاء اور امراء کی تو سمجھ میں آجاتی ہے کہ وہ ملالہ جیسی ایک عام سی لڑکی کی مخالفت اس بنا پر کر رہے ہیں کہ پاکستان نام کا ملک دراصل ان کی جاگیر ہے جو مغلوں کے دربار سے انگریزوں کی دربانی اور اب نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی نگہبانی تک کے پیشہ کاسہ لیسی کو اپنا موروثی حق سمجھتے ہیں ۔ ان کے اجداد نے ہی مغلوں کو مقبرے، مینار اور گنبد بنانے ، پری محل اور شالیمار باغ تعمیر کرنے کے صائب مشورے اس لئے دیے ہوں گے کہ اگر سکول اور مدرسے کھول دئے جاتے تو یہاں کوئی ملالہ ان کی خدمت کرنے والے ہاتھوں میں کتاب اور قلم تھما دیتی۔ انگریز وں کو بھی انھوں نے تعلیم کو بابو اور کلرک پیدا کرنے والی صنعت تک محدود رکھنے کا کہا ہوگا تاکہ کمی کماروں کے بچے اہل خرد نہ بن سکیں اور صاحب امر اہل ولایت یا ان کے کاسی لیس ہی رہیں۔ پاکستان میں بھی معیاری تعلیم کے لئے کیڈٹ کالج ہی بنائے جاتے ہیں جہاں آدھی سے زیادہ آبادی کا داخلہ ہی ممنوع ہو جاتا ہے۔ امرا کی علم دوستی کا یہ عالم ہے کہ بغیر کسی استاد، قلم یا کتاب کے ہی نہ صرف مملکت خداداد کے اندر بلکہ اب تو یہاں سےامریکہ اور یورپ میں بھی تعلیمی اسناد کی رسد جاری ہے۔ ملالہ کی مخالفت اس کے کتاب، استاد اور قلم کے لئے تردد کی وجہ سے ہے جس سے ان کے بچوں کو بھی حصول علم کے لئے لکھائی پڑھائی جیسی مشقت سے گزرنا پڑے گا جو ان کے طبقے کا وطیرہ نہیں۔

مذہبی طبقے کی مخالفت بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ ملالہ کتاب اور قلم جیسی لغویات کی بات کر رہی ہے جس کے بغیر ہی وہ نوجوان نسل کو علم کے نور سے منور کررہے ہیں۔ ہمارے ہاں کئی مدارس البنا ت میں لکھنا سکھایا ہی نہیں جاتا کہ طالبات کہیں نامحرموں کو کچھ لکھ ہی نہ دیں۔ کتاب بھی صرف کھول کر زبانی یاد کرنے کی حد تک دستیاب ہے اس کو پڑھ کر سوال اٹھانے والے کو اٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ اگرکوئی کسی سوال کے جواب کو تلاش کرنے کی کوئی کوشش بھی کرتا ہے تو اس کو ایک خاص عینک دی جاتی ہے کہ وہ صرف اسی سے ڈھونڈ سکے۔ ایسے میں ہر بچے کے لئے کتاب اور قلم کا مطالبہ وہ بھی ایک لڑکی کے منہ سے فساد فی الارض سے کم نہیں تو مخالفت کیسے نہ کی جائے۔

مجھے تعجب ان لوگوں کی ملالہ کے لئے مخالفت پر ہوتا ہے جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنھوں نے میری طرح اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے مہاجرت کی ہے اور دن رات محنت کی ہے ۔ جو اپنے بچیوں کے سکول میں پرفارمنس کے کارڈ کا انتظار کرتے ہیں اور اس پر لکھی عبارت پڑھ کر خوش ہوتے ہیں یا افسردہ۔ وہ کیسے ملالہ کی اس خواہش کی مخالفت کر سکتے ہیں کہ دنیا میں ہر بچی ان کی بیٹی کی طرح تعلیم یافتہ ہو، باشعور ہو اور اپنے اچھے برے کا فیصلہ خود کرنے کی اہلیت کی حامل ہو۔ جس کتاب اور قلم پر ان کی بچی کا حق ہے اس پر شانگلہ ، مسگر، پنجگور، کھاران، تھر پارکر، بہاولنگر کی بچیوں کا بھی حق ہے۔ اگر ایک قلم ، ایک کتاب کے ساتھ ایک استاد کی کمی پورا کرنے کے لئے ماروی سومرو اپنی پر تعیش زندگی ترک کرکے مسگر میں سکونت اختیار کرتی ہیں تو اس میں سازش کیوں ڈھونڈھی جاتی ہے؟ کرس کارک نے آج سے ستائیس سال پہلے اپنی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد لندن کی چکا چوند روشنیوں کو چھوڑ کر نگر سے لالٹین کی روشنی میں جس سکو ل کا آغاز کیا تھا وہاں سے نونہال آج لند ن اور کنیڈا پہنچ چکے ہیں۔ کرس تو خبطی ہے جو یہاں معذور بچیوں کو ڈھونڈتا ہےان کو تعلیم دلاتا ہے اور ولایت کی شہریت بھی تاکہ بےزبان ہوتے ہوۓ بھی یہ بچیاں دنیا میں ایک بھرپور زندگی گزار سکیں۔ کرس نے خود بہاولپور کی گرمی میں رہ کر اپنی بیوی روز کے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کی اور اس کو لندن میں تعلیم دلوایا۔ اس پر زیادہ لکھنے سے ڈرتا ہوں کہ کہیں چوہدری نثار کو ان میں بھی کوئی سازش نظر نہ آئے۔ کامریڈ واحد بلوچ اور اسکی بیٹی ہانی جب اپنے گھر کے خرچے سے پیسے بچا کر پرانی کتابیں لاکر لیاری کی گلیوں میں گھومتے بچوں کو علم کی روشنی سے منور کرتے ہیں تو ان میں غداری کیوں نظر آ جاتی ہے۔

ملالہ، کرس، ماروی اور ہانی کا کاروان ہی ہمارے مستقبل کا قافلہ ہے اور ایک قلم، ایک کتاب اور ایک استاد کا نعرہ ہی ہمارا جرس کاروان ہے۔ جو اس کارواں کی مخالفت کرتا ہے وہ دراصل ہوا کے تازہ جھونکوں کو آنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور سورج کی کرنوں سے پھوٹنے والی روشنی کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ علم و نور کے یہ درخشان ستارے اکھٹے ہوں اور ایک نئی کہکشاں بنا دیں جس کے ہمسفر ہم سب ہوں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan