سرینوں کو ڈھانپو


عبدالولی خان یونیورسٹی، مردان، کے ذہین اور خوش خصال طالب علم مشال خان کی ساتھی طالب علموں کے ہاتھوں بہیمانہ موت کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ یہ وڈیو اس قدر لرزہ خیز ہے کہ اسے عوامی پلیٹ فارم پر پیش کرنا ممکن نہیں۔ اس کی بجائے شہید طالب علم کی زندگی کی ایک تصویر پیش کی جا رہی ہے۔ اس تصویر میں مشال خان کے ہاتھوں میں ہتھیار کی بجائے ساز کی موجودگی بتا رہی ہے کہ مشال خان کا جرم زندگی، خوبصورتی اور امن سے محبت تھا۔

اس سانحے کی مناسبت سے ن م راشد کی ایک نظم پیش خدمت ہے، ” زنجبیل کے آدمی”۔ راشد نے یہ نظم مشرقی پاکستان میں قتل عام پر لکھی تھی۔ سونار بنگال کے سانحے کو نصف صدی گزر چکی۔ لہو اب بھی بہہ رہا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے شعور پر وحشت کا غلبہ ہے اور یہ کہ ہمارے احترام آدمیت کے حساس حصے بدستور شرمندہ  حجاب نہیں ہوئے۔ ہم نے زندگی سے محبت نہیں سیکھی۔ ہم سروں کا گلہ گھونٹ رہے ہیں۔ مرنے والے کو تو کفن بہرطور مل جاتا ہے۔ ہماری تہذیب کے ننگے سرین کون ڈھانپے گا؟

٭٭٭    ٭٭٭

زنجبیل کے آدمی

مجھے اپنے آپ سے آ رہی ہے لہو کی بُو

کبھی ذبح خانے کی تیز بُو
کبھی عورتوں کی ابلتی لاشوں کی تیز بُو
کبھی مرگھٹوں میں کباب ہوتے ہوئے سروں کی
دبیز بُو
وہ دبیز ایسی کہ آپ چاہیں تو
تیغِ تیز سے کاٹ دیں

مجھے اپنے آپ سے آ رہی ہے لہو کی بُو،

کہ مجھی کو قتل کیا ہو جیسے کسی نے
شہر کے چوک میں!
یہی چوک تھا۔۔
یہی وہ مقام تھا، ناگہاں
کسی خوف سے میں جسد سے اپنے لپٹ گیا
(کہیں تھا بھی میرا جسد مگر؟)
مرے آنسوؤں کی لڑی زمیں پہ بکھر گئی
مری “ہیک ہیک” نہ تھم سکی ۔۔
کبھی سائے آ کے سکڑ گئے
کبھی اور بڑھتے چلے گئے
کہ وہ اپنے جبر کے محوروں کے سوا نہ تھے
کسی اور راہ سے باخبر؛
مری سسکیاں کسی بے صدائی کے ناگہاں میں
اتر گئیں ۔۔

ابھی چاند دفن تھا بادلوں کے مزار میں

وہیں میں نے نفسِ فریب کار کا سر، بدن
سے اڑا دیا
وہیں میں نے اپنی خودی کی پیرہ زنِ خمیدہ کمر
کی جان دبوچ لی
وہ کوئی برہنہ و مرگ رنگ صدا تھی
جس کا سراغ پا کے میں چل پڑا ۔۔۔
وہ صدا جو مسخرہ پن میں مجھ سے کبیر تر
وہ صدا جو مجھ سے شریر تر
کسی فلسفے میں رچی ہوئی وہ چڑیل ۔۔۔
احمق و تند و خو ۔۔
نئے ریگ زاروں میں، فاتحوں کے جہانِ پیر میں
گھومتی ہوئی سُو بہ سو
نئے استخوانوں کے آستانوں کی راہ جو ۔۔۔

(سرینوں کو ڈھانپو کہ اِن پر ابھی زندگی کی لکدکوب کے اُن ہزاروں برس کے نشاں ہیں، جو گزرے نہیں ہیں، کہ ننگے سُرینوں کی دعوت

سے پڑتے رہے ہیں ہمیشہ سے اُن پر روایات کے بعد کے تازیانے  اور اُن کے سوا ُن جواں تر نکیلے دماغوں کی کرنوں کے نیزے، جو معقول و منقول دونوں سے خود کو الگ کر چکے ہیں؛

سُرینوں کو ڈھانپو کہ اب تک وہ کودن بھی موجود ہیں جن کا ایماں ہے غوغا و کشتار و امرد پرستی سے وہ بادشاہت ملے گی کہ جس کو وہ برباد کرنے میں مختار ہوں گے ؛

یہ وہ لوگ ہیں جن کی جنت کے الٹے چھپرکھٹ میں کابوس کی مکڑیاں اُن کی محرومیاں بُن رہی ہیں، وہ جنت کہ جس میں کسالت کے دن رات نعروں کی رونق سے زندہ رہیں گے ۔۔)

کئی بار میں نے ۔۔ نکل کے چوک سے ۔۔ سعی کی

کہ میں اپنی بھوتوں کی میلی وردی اتاروں
نئے بولتے ہوئے آدمی کے نئے الم میں شریک ہُوں
میں اسی کے حُسن میں، اُس کے فن میں، اُسی کے دم میں
شریک ہُوں

میں اُسی کے خوابوں، انھی کے معنیِ تہہ بہ تہہ میں
انھی کے بڑھتے ہوئے کرم میں شریک ہُوں ۔۔
وہ تمام چوہے ۔۔ وہ شاہ دولا کے ارجمند ۔۔
ہرایک بار اُچھل پڑے ۔۔ مرے خوف سے
مرے جسم و جاں پہ اُبل پڑے!
تو عجیب بات ہے، مَیں اگر
ہمہ تن نشاطِ غرور ہوں؟
شبِ انتقام کی آگ میں ہوں جلا ہوا؟
کہ فنا پرست کدورتوں میں رچا ہوا؟
سُنو! جنگ جوؤ، سپاہیو
مری آرزو کی شرافتوں کو دغا نہ دو

میں لڑھک کے دامنِ کوہ تک جو پہنچ گیا
تو یہ ڈر ہے ۔۔
زندہ چبا نہ لوں تمھیں ۔۔ کہ تم
ہو تمام “شیرۂ زنجبیل کے آدمی”!
مری بے بسی پہ ہنسو گے تم تو ہنسا کرو ۔۔
میں دعا کروں گا:
خدائے رنگ و صدا و نُور
تُو اِن کے حال پہ رحم کر!
(خدا،
رنگِ نَو، نور و آوازِ نَو کے خدا!
خدا،
وحدتِ آب کے، عظمتِ باد کے
رازِ نَو کے خدا!
قلم کے خدا، سازِ نو کے خدا!
تبسّم کے اعجازِ نَو کے خدا!۔۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).