مشال خان عرف محمد اخلاق (سکنہ جنت) کا بیٹے کے نام خط


میرے پیارے بیٹے تم پر سلامتی ہو!

یہ داستان مختصر مگر درد انگیز ہے۔ زندگی کی پچاس بہاریں اسی دیس میں نے گوشت کھاتے اور قربانی کرتے گزاریں۔ پچاس سال تک مجھے نماز پڑھتے ہوئے ڈر نہیں لگا۔ قربانی کرتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوا۔ میں نے یہیں میلاد منائے۔ یہیں پر محرم کے جلوسوں میں شریک رہا۔ یہیں پر عیدگاہ اور جمعہ کے اجتماعات میں جاتا رہا۔ نہ کوئی خوف تھا اور نہ پابندی۔ بس کوئی قریب دو سال پہلے جب مذہبی شدت پسند میرے دیس کے سیاہ و سفید کا مالک بنا تو ہم اپنے ہی دیس میں اجنبی ہو گئے۔ اب مسجد جاتے ہوئے خوف محسوس ہوتا تھا کہ کوئی راستے میں مار دے گا۔ عید، شب برات پر باہر نکلتے ڈر لگنے لگا۔ قربانی ممنوع ہو گئی۔ تمہیں جمعہ پڑھنے سے اسی لئے منع کرتا تھا کہ راستے میں کوئی شدت پسند مار نہ دے۔ ہر وقت یہ خوف لاحق رہتا کہ کوئی حملہ کر دے گا۔ بیٹا میرے پاس تو دال کھانے کی بھی نہیں تھی میں گوشت کہاں سے لاتا۔ گوشت کبھی کبھی کھانا نصیب ہوتا تھا۔ جانے ان ظالموں کو کس نے کہا تھا کہ میرے گھر گوشت موجود ہے۔ انہوں نے مجھے گھر سے نکال کر اینٹوں سے مارا۔ میرا چہرہ، میرا سر خون سے لت پت تھا۔ میرا وجود درد سے کراہا رہا تھا۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ میں نے کسی کا خون نہیں بہایا تھا۔ مگر مجھے مار دیا گیا۔

بہت سوچنے کے بعد بھی اگر مجھے میرا کوئی جرم سمجھ آیا تو بس اتنا کہ تقسیم کے وقت میرے باپ دادا نے پاکستان جانے کی بجائے ہندوستان کو ہی اپنا وطن جانا تھا۔ مجھے جب پہلا پتھر لگا تو میرے دل میں بے اختیار آیا کہ میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاؤں۔ مجھے اس وقت یقین ہوتا کہ یہ لوگ مجھے مار دیں گے تو میں یہ نعرہ ضرور لگاتا مگر مجھے جینے کی امید تھی اس لئے میں صرف چیختا رہ گیا۔ مجھے اتنا بھی موقع نہیں ملا کہ میں تمہیں یہ وصیت کرتا کہ میرے بعد تم پاکستان چلے جانا۔ جہاں تمہیں نماز پڑھتے ہوئے نہیں ڈر تو نہیں لگے گا۔ جہاں جمعہ سے واپس آتے ہوئے تمہیں خوف تو نہیں ہو گا۔ تم س پاک سرزمین چلے جاؤ جہاں مذہبی آزادی تو نصیب ہو گی۔ میرے دل میں شدت سے یہ خیال آیا کہ میرے مسلمان پاکستانی بھائی کتنے خوش قسمت ہیں جو اپنے وطن میں مذہب کے نام پر تو قتل نہیں ہوتے۔

بیٹا! میں سیدھا جنت میں داخل کیا گیا کیونکہ میں ایک بے گناہ شہید تھا۔ جنت میں ایک عالی شان محل ہے جہاں صرف میرے جیسے لوگ ہیں جن کو مذہبی شدت پسندوں نے مارا ہے۔ بے گناہ اور مظلوم شہید۔ مجھے یہاں بہت سے عراقی، فلسطینی، افغانی، شامی اور کشمیری ملے۔ میرے پیارے بیٹے وہ عراق کی چودہ سالہ معصوم عبیر یہیں پر اداس بیٹھی تھی جس کی موت پر تمہاری ماں بے اختیار روتی رہی تھی۔ وہ معصوم ایلان بھی یہیں تھا جس کی موت پر پوری دنیا نے آنسو بہائے تھے۔ فلسطین کا خوبصورت جوان فادی ایلون بھی یہیں تھا جس کے لئے تونے شاید اب فیس بک پر بھی اپنی ڈی پی کالی نہیں کی ہو گی کیونکہ تم اب شدت پسندوں کے نرغے میں ہو۔ افغانستان کی فرخندہ اور رخسانہ بھی یہیں تھیں جن کو میری طرح پتھر مارے گئے تھے۔ مجھے ان سے بے پناہ انسیت محسوس ہوئی کیونکہ ان کے چہروں پر ابھی تک پتھروں کے وہ نشان تھے جو میرے چہرے پر ہیں۔ وہ تین سالہ کشمیری برہان جس کے لئے ہم نے چھپ کر مسجد میں فاتحہ خوانی کی تھی وہ بھی یہاں اپنے والد کی گود میں خوف زدہ آنکھوں سے لیٹا تھا جسے اسے ایک بار پھر مرنے کا خوف ہو۔ میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ یہاں بیٹھنا میرے لئے کرب کا باعث تھا۔ میں اداس قدموں سے چلتا یہاں کچھ دور ایک ٹولی کے پاس پہنچا جو آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے۔

میں نے قریب جا کر سلام کیا۔ انہوں نے خندہ پیشانی سے جواب دیا۔ ان میں ایک بہت پرنور باریش چہرے والا بزرگ تھا۔ انہوں نے پوچھا بیٹا کہاں سے آئے ہو اس محل میں؟ میں نے کہا ہندوستان سے۔ انہوں نے کہا کیوں؟ میں نے بتایا کہ مجھے ہندو شدت پسندوں نے گوشت رکھنے کے شبہے میں مار ڈالا۔ انہوں تاسف سے سر نفی میں ہلایا اور کہنے لگے کہ ہندوستان کے حالات اب اتنے خراب ہو گئے کیا۔ ہندوستان تو ایک کثیر المذہب سیکولر ملک تھا۔ وہاں ایسا کیوں ہونے لگا ہے؟ میں نے بتایا کہ ایک مذہبی شدت پسند کو اقتدار ملا ہے۔ اس نے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنی شروع کر دی ہے۔ ہندوستان کے سیکولر ازم کا پردہ فاش ہو گیا۔ وہاں اب اقلیتوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں رہی۔

بابا جی دھیرے سے مسکرائے۔ کہنے لگے۔ بے شک االلہ انصاف پسند ہے۔ غم نہ کرو۔ تمہیں تمہارے بے گناہی کا صلہ ملے گا اور تمہارے مجرموں کو ان کے اعمال کی سزا ضرور ملے گی۔ میں نے کہا! مگر بابا جی میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ مجھے مذہب کے نام پر بے گناہ قتل کیا گیا ہے۔ گوشت کھانا کونسا جرم تھا جو ان ظالموں نے مجھے مار دیا۔ مجھے آج احساس ہوا کہ قائداعظم محمد علی جناح کا دو قومی نظریہ ٹھیک تھا۔ ہم تقسیم کے وقت پاکستان چلے جاتے تو کم ازکم مذہب کے نام پر قتل تو نہ ہوتے۔ بابا جی پھر مسکرائے۔ کہنے لگے۔ تمہیں معلوم ہے نا کہ یہ محل ان لوگوں کا ہے جو مذہب کے نام پر بے گناہ مارے گئے ہیں۔ میں نے تفیہم میں سر ہلایا۔ وہ کہنے لگے میں پاکستانی ہوں۔ میرا نام حسن جان مدنی ہے۔ شیخ الحدیث تھا۔ وفاق المدارس کا نائب صدر تھا۔ یہ ڈاکٹر غلام مرتضی ملک ہیں۔ یہ پی ایچ ڈی تھے۔ دینی عالم تھے۔ یہ ڈاکٹر فاروق خان ہیں۔ یہ سوات یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ یہ بھی عالم تھے۔ یہ شکیل اوج ہیں۔ یونیورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر تھے۔ یہ مفتی شامزئی ہیں۔ یہ مولانا عبد المجید ہیں۔ یہ مولانا احسان ہیں۔ یہ مفتی صالح محمد ہیں۔ یہ علی اکبر کمیلی ہیں۔ یہ سب مسلمان ہیں۔ عالم دین ہیں۔ پاکستانی ہیں۔ یہ سب اسی محل میں تمہارے ساتھ ہیں جہاں صرف مذہبی شدت پسندی کے مقتول شہید بستے ہیں۔ تم پاکستان چلے جاتے تو کیا مختلف ہوتا؟ ان میں سے کسی کو کسی ہندو نے گوشت کھانے کے جرم میں نہیں مارا۔

میں حیرت و یاس سے باباجی کی طرف کی دیکھ رہا تھا۔ میری زبان گنگ تھی۔ کہنے کو کوئی لفظ نہیں تھا۔ میں نے بابا جی سے کہا کہ آپ لوگوں نے قائداعظم سے شکایت کیوں نہیں کی کہ ان کے بنائے گئے وطن میں اسلام کے نام پر مسلمان ہی قتلکیے جاتے ہیں۔ مجمعے میں بیٹھے ایک نوجوان نے قدرے ترش لہجے میں کہا کہ قائداعظم کے محل کے باہر تو شہباز بھٹی نے ہزاروں ہندوؤں، عیسائیوں، پارسیوں، سکھوں اور احمدیوں کا جلوس لے کر دھرنا دیا ہوا ہے جو پاکستان میں قتل ہوئے۔ قائداعظم تو ان ہی کو مطمئن نہیں کر پا رہے ہم قائد کو نئے امتحان میں کیوں ڈالیں؟ ہم نے اپنا مقدمہ خدا کے سپرد کر دیا ہے۔

بیٹا! پاکستان کے حالات بھی مختلف نہیں ہیں۔ یہاں تو ہندو مار دیں گے مگر وہاں اپنے مسلمان بھائی بھی مار سکتے ہیں۔ بیٹا تم پاکستان نہ جانا۔ تم یہیں رہ کر اپنے حقوق کی جنگ لڑنا۔ بیٹا گائے نہ کھانے سے بھی موت نہیں آتی اگر یہ کھانے نہ دیں تو نہ کھانا۔

محبتوں کے ساتھ

محمد اخلاق

یہ کالم پچھلے سال اتر پردیش دادری میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں گوشت رکھنے کے جرم میں ماورائے قانون قتل کیے جانے والے اخلاق احمد کے پر لکھا تھا۔ آپ اخلاق احمد کا نام مشال کر دیں۔ اتر پردیش کو خیبر پختونخوا کر دیں۔ دادری کو مردان کر دیں اور پھر فرق تلاش کیجیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مشال پر الزام کیا تھا۔ میں اس سے بھی واقف نہیں ہوں کہ الزام میں صداقت کتنی تھی۔ مشال کے فیس بک پروفائل یا اس کے جاننے والے والوں نے ابھی تک ایسی کسی چیز کی گواہی نہیں دی جس سے مشال مجرم ثابت ہوتا ہو۔ تھوڑی دیر کے لئے تسلیم کر لیجیے کہ مشال نے کوئی جرم کیا ہو گا۔ تھوڑی دیر کے لئے مان لیجیے کہ اس جرم کی سزا بھی ملکی قانون میں سنگین تھی۔ اس کے بعد بتا دیجیے کہ دنیا کا کونسا قانون، کونسا آئین، کونسا دستور، کونسی اخلاقیات، کونسے اقدار ایک ہجوم کو اتنی بے دردی سے ایک انسان کے قتل کا جواز بخشتے ہیں؟ معلوم نہیں ہماری اگلی منزل کیا ہے؟ سر دست تو ہم اندھیروں کے باسی ہیں۔ علی سردار جعفری نے جانے کیوں لکھا تھا مگر درست لکھا تھا،

راستے بند ہیں سب کوچہ قاتل کے سوا۔ تیغ منصف ہو جہاں، دار و رسن ہوں شاید۔ بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah