مشال خان، مر گئے ہو، اب چپ بھی رہو


میرے پاس بس ایک رنگ بچا ہے، سرخ رنگ۔ آو اس میں برش ڈبوئیں اور خاک کے کینوس پر بنے اس جسم کو پینٹ کریں۔ وہ دن گئے جب قلم کی نوک سے سیاہی کے قطرے گرتے تھے اب اس سے احمریں لہو کی دھاریں گرتی ہیں۔ آؤ اس خون سے کچھ تاریک لفظ لکھتے ہیں۔ ابھی کچھ دیر میں خون جم جائے گا۔ پھر یہ کاغذ پر بکھرے سارے لفظ ہمارے دل کی طرح ایک سیاہ کہانی بن جائیں گے۔

یہ نیم برہنہ شکستہ جسم دشت لیلی کی گرم ریت پر سلگ رہا ہے کہ رقہ کے اجڑے بازار کے بیچ تڑپتا ہے۔ یہ حلب کی سرحد پر گرا ہے کہ وزیرستان کی دور افتادہ پہاڑیوں پر بکھرا ہے۔ نہیں، وہاں نہیں، یہ تو سنگ مرمر کی سیڑھیوں کے قدموں میں دھرا ہے۔ یہ سیڑھیاں ایک عمارت کی طرف اٹھتی ہیں۔ یہ مقتل نہیں ہے، یہ جامعہ ہے۔ ملک کی اعلی یونیورسٹیوں میں سے ایک۔ یہ اس ملک کے سب سے پڑھے لکھے اور ایک فیصد سے بھی کم لوگوں کا مسکن ہے۔ یہ اس ملک کا مستقبل ہیں۔ اس کی امید کی ڈور ہیں۔ اس کے خوابوں کی تعبیر ہیں۔ اس زمین کا آسمان ہیں یہ لوگ۔ اور یہ سب جوق در جوق تماشہ دیکھنے کے لیے ٹوٹے پڑتے ہیں۔ کسی چہرے پر ندامت نہیں ہے۔ کسی آنکھ میں آنسو نہیں ہیں۔ کوئی ہاتھ ظلم کی راہ میں مزاحم نہیں ہے۔ جو کچھ ہاتھ اٹھے ہیں ان میں موبائل سے ویڈیو بنتی ہے۔ یہ اوندھے منہ ایک کڑیل جوان پڑا ہے۔ اس کے جسم کے زیریں حصے سے کپڑے نوچ لیے گئے ہیں۔ اوپری جسم لہو لہو ہے۔ ایک گولی شاید سر میں اتاری گئی ہے ایک شاید سینے میں۔ کچھ سانس ابھی چلتے ہیں۔ پھر ہجوم میں سے ایک جوان لپکتا ہے۔ ایک اینٹ اٹھاتا ہے اور لاش بنتے جسم کے سر پر دے مارتا ہے۔ اینٹ اچٹتی ہے۔ سر پاش پاش نہیں ہوتا۔ دوسروں کا جذبہ ایمانی مہمیز ہوتا ہے۔ ایک کے بعد ایک نوجوان پتھر، اینٹیں اور ڈنڈے لیے حملہ آور ہوتا ہے۔ کوئی سر پر ٹھڈے مار رہا ہے کوئی سینے پر ٹھوکریں لگا رہا ہے۔ سر کھل گیا ہے۔ اندر جو تھا وہ اب فرش پر بکھرا پڑا ہے۔ ہر طرف اللہ اکبر کے نعرے ہیں۔ یہ سب طالب علم ہیں جو اس وقت صرف لہو کے طالب ہیں۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھا عبدالولی خان یونیورسٹی کی یہ ویڈیو دیکھتا ہوں اور اپنے انسان ہونے پر شرمندہ ہوتا ہوں۔ اور کیا کروں؟

میں مشال خان کو نہیں جانتا۔ میں اس کا فیس بک پیج کھولتا ہوں۔ ایک خوبصورت جوان کی زندگی سے بھرپور تصویریں دیکھتا ہوں۔ خوبصورت لفظوں میں لپٹی اس کی فیس بک پوسٹس پڑھتا ہوں۔ کہیں توہین کا سرا نہیں ملتا، کہیں کم ترین درجے میں بھی کوئی فضول بات نہیں ہے۔ آئیے اس کی کچھ پوسٹس آپ بھی پڑھیے۔

“ یا مجھے جہل کی نعمت دے یا مجھے علم کو سنبھالنے کا حوصلہ“

“ میرے اور تمہارے اندھیرے جدا ہیں۔ میں اپنی برائی کا چہرہ جانتا ہوں لیکن تم نے اپنا آئینہ ڈھانپ دیا ہے۔ میں اپنے گناہوں کا منکر نہیں بنتا پر تم اپنے بنائے اوہام میں قید اپنے گناہ دیکھ نہیں پاتے“

“لوگ پانی پر چلنے کو کرامت جانتے ہیں اور میں زمین پر امن سے چلنے کو معجزہ سمجھتا ہوں“

ایک نظم بھی نظر آتی ہے۔ یہ مشال کی لکھی ہوئی نہیں پر انتخاب پر سوچیے کہ کیوں کر مشال کو دیوار کے پار دکھتا تھا

میں لاپتا ہوگیا ہوں
کئی ہفتے ہوئے
پولیس کو رپورٹ لکھوائے
تب سے روز تھانے جاتا ہوں
حوالدار سے پوچھتا ہوں
میرا کچھ پتا چلا؟
ہمدرد پولیس افسر مایوسی سے سر ہلاتا ہے
پھنسی پھنسی آواز میں کہتا ہے
ابھی تک تمھارا کچھ سراغ نہیں ملا
پھر وہ تسلی دیتا ہے
کسی نہ کسی دن
تم مل ہی جاؤ گے
بے ہوش
کسی سڑک کے کنارے
یا بری طرح زخمی
کسی اسپتال میں
یا لاش کی صورت
کسی ندی میں
میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں
میں بازار چلا جاتا ہوں
اپنا استقبال کرنے کے لیے
گل فروش سے پھول خریدتا ہوں
اپنے زخموں کے لیے
کیمسٹ سے
مرہم پٹی کا سامان
تھوڑی روئی
اور درد کشا گولیاں
اپنی آخری رسومات کے لیے
مسجد کی دکان سے ایک کفن
اور اپنی یاد منانے کے لیے
کئی موم بتیاں
کچھ لوگ کہتے ہیں
کسی کے مرنے پر
موم بتی نہیں جلانی چاہیے
لیکن وہ یہ نہیں بتاتے
کہ آنکھ کا تارہ لاپتا ہوجائے
تو روشنی کہاں سے لائیں؟
گھر کا چراغ بجھ جائے
تو پھر کیا جلائیں؟ “

۔ ” میں ایک عمر سے کانٹے چنتا ہوں اور پھول بوتا ہوں۔ وہ پھول جو سوچ اور ذہن میں اگتا ہے“

اب یہ جن کی نظر میں کانٹا تھا، انہوں نے اسے چن دیا ہے اور سارا چمن خاکستر ہے۔ پھول اب کہاں اگے گا۔

یار کمال کرتے ہیں۔ ایک سے ایک تاویل ہے قتل کی۔ جو اسے مسلمان کی بجائے دہریہ یا ملحد کہنے پر مصر ہیں، ان سے پوچھنا ہے کہ کون سا اسلام الحاد یا دہریت پر ہجوم کی جانب سے حد جاری کرتا ہے۔ کون سا ملکی قانون اس ضمن میں سزا دیتا ہے۔ جو اسے توہین کا مرتکب بتاتے ہیں، ان میں وہ بھی ہیں جو اس کی دیوار سے عبدالحمید عدم کا شعر نقل کرتے ہیں اور اسے توہین کی مثال بتاتے ہیں۔ اگر یہ بھی اہانت کے زمرے میں درج کرنا ہے تو پھر شہر میں کوئی بھی زندہ نہ رہے گا حضور۔ چلیے بفرض محال آپ کی بات مان لیں تو پولیس کدھر ہے۔ ایف آئی آر کا کاغذ کہاں ہے، عدالت کہاں گئی، ملزم کی صفائی کا موقع کہاں گیا، شہادتوں کا اندراج کہاں ہوا، فیصلہ سنانے کا اختیار رکھنے والا قاضی کیا ہوا۔ یہ قاتلوں کو سارے اختیار دینے کا جواز اخلاقیات کی کس کتاب سے برآمد ہوا ہے، قانون کی کس دفعہ سے اس پر مہر لگی ہے، مذہب کی کون سی تشریح سے اس کا دفاع ممکن ہوا ہے۔ جنہوں نے الزام لگایا، انہوں نے ہی عدالت سجائی، سزا سنائی اور وہی جلاد بھی بنے۔ واہ۔

مشال خان کی تصویر دیکھیے۔ یہ گولی کی زبان کے مقابل موسیقی کے سر چھیڑتا تھا۔ ایسا کون بے وقوف ہوتا ہے۔ سو سزا پا لی ہے۔ میں رپورٹنگ نہیں کر رہا۔ مجھے تحقیقات نہیں کرنی ہیں۔ کچھ دیر میں چینل ایک سے ایک بازی لے جائیں گے۔ مشال کی ساری زندگی ابھی آپ کے سامنے ہوگی۔ کچھ الزام لگیں گے، کچھ صفائیاں دی جائیں گی۔ شاید سچ بھی سامنے آ ہی جائے۔ مجھے اس سے غرض نہیں ہے۔ میرے پاس تو بس کچھ ٹوٹے پھوٹے سوال ہیں جن کو لیے میں گھوم رہا ہوں۔ کوئی مجھے ان کے جواب دے دے۔

الزام جو بھی ہو، کیا سزا دینے کا حق عدالت کے سوا کسی کا ہے؟ اگر نہیں تو یہ بربریت کیوں محو رقص ہے؟ آئیں کی دفعہ 295 سے 298 کو وجود میں آئے تیسری دہائی ہے۔ پاکستان کو بنے ستر سال ہو گئے۔ کیا وجہ ہے کہ دفعات کے ادھر کے چالیس سالوں میں ان جرائم کا سراغ خال خال ملتا ہے اور ادھر کے تیس سالوں میں مانو سیلاب بند توڑ کر نکلا ہو۔ اس آڑ میں کس کس اور جرم کی پردہ داری ہوئی ہے؟ ملک کی بیس کروڑ کی آبادی میں سے بمشکل 5 فی صد یونیورسٹیوں میں پہنچ پاتے ہیں۔ یہ ہمارا سب سے تعلیم یافتہ طبقہ ہے۔ اگر یہ 5 فی صد بھی متشدد اور قانون کے احترام سے نابلد ہے تو باقی 95 فی صد کا کیا حال ہو سکتا ہے؟ اس حال میں امید کا دیا کیسے جلے گا اور کون جلائے گا؟ اگر ہمارے مذہب کا یہی چہرہ دنیا نے دیکھنا ہے تو کون اس دنیا کو اس بات پر قائل کرنے گا کہ یہ مذہب امن کا مذہب ہے؟ آپ ایک شعلہ بیان خطیب کی ابھی کی ویڈیو بھولے تو نہیں ہوں گے جس میں انہوں نے صاف صاف کہا تھا کہ اسلام امن کا دین نہیں ہے۔ اور ان کے حاضرین کی واہ واہ آسمان تک گئی تھی۔

بھارت میں گاؤ ہتیا پر مرتے مسلمانوں کو مذہبی انتہا پسندی اور نفرت کا شکار سمجھنے والے ہمارے دوست اپنی ہی سرحدوں کے اندر مشال جیسے نوجوانوں کے تشدد سے مرنے کو بھی کیا انتہاپسندی کا شاخسانہ بتائیں گے یا اسے ایمان کی فتح قرار دیں گے؟ چلیں مذہبی بحث کو بھی چھوڑیں، ایک پاکستانی کی حیثیت سے میں کیا کہوں کہ میرے سب سے تعلیم یافتہ ذہن ایک جامعہ کی سیڑھیوں پر اپنے ہی ساتھی کو گولیوں، لاٹھیوں اور پتھروں سے قتل کرتے ہیں اور ان کے باقی تعلیم یافتہ ساتھی اس کی ویڈیو بناتے ہیں یا پھر بس تماشہ دیکھتے ہیں۔ میں کیسے اس ملک کا شہری ہونے پر فخر کروں؟ میری ریاست کہاں ہے؟ میرا نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے؟ میرے قانون کے رکھوالے کہاں ہیں؟ میری انسانیت کہاں ہے؟ میرا امن کا عقیدہ کہاں ہے؟ میرے دانشور کہاں ہیں؟ میرے پیشوا کہاں ہیں؟ یہ موت کی خاموشی میں کوئی بولتا کیوں نہیں ہے؟ کدھر گیا میرا متبادل بیانیہ؟

پھر میرے کان میں کوئی سرگوشی کرتا ہے۔ کہتا ہے، حاشر، اتنے معصوم نہ بنو۔ تم جانتے ہو، یہ سارے جواب مشال خان کے پاس ہیں۔ اس کا سیاہ پڑتا لہو لفظ بناتا ہے۔ ایک تاریک کہانی سناتا ہے۔ پر تم بہرے اور اندھے بنے رہنا چاہتے ہو۔ تم یہ کہانی سننا نہیں چاہتے، پڑھنا نہیں چاہتے کہ اس کا ایک کردار تم بھی ہو۔ میں ہونٹوں پر انگلی رکھتا ہوں اور آہستہ سے کہتا ہوں۔ مشال خان، مر گئے ہو۔ اب چپ بھی رہو۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad