ملالہ جتنی عزت دوسری لڑکیوں کو کیوں نہیں ملتی


 فکری مغالطوں کا شکار ہم سب اپنا اچھا برا پہچاننے سے قاصر ہیں۔ دوست دشمن کی تمیز سے ماورا، جہالت، اندھی تقلید، اور لاشعوری کمزوریوں کی رمزوں میں گھرے ہم لوگ ہجوم نما قوم بنے ہیں جو کسی طور خواب غفلت سے بیدار ہونے کا نام تک لینے کو تیار نہیں ہیں۔

دہشت گردی کی آگ نے مسکراہٹوں کو کچل کر سسکیوں کو جنم دیا۔ گلستانوں کو صحراؤں میں تبدیل کیا اور آباد بستیوں کو، مکانوں کو ، قبرستانوں میں تبدیل کیا مگر ہماری زبان تالو سے چپکی ہے۔ ملک و ملت، مذہب و شریعت کے نام پر معصوم انسانوں کا بہیمانہ قتل عام کرنے والے یہ درندہ صفت دہشت گرد، جو ہمارے ملک میں شدت پسندی، قدامت و انتہا پرستی کو فروغ دینے میں سرگرم عمل ہیں طالبان کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد معصوم انسان ان طالبان و دیگر دہشت گرد تنظیموں کی پھیلائی ہوئی شدت پسندی اور قاتلانہ روش کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن چکے ہیں مگر ہم ہیں کہ اپنی آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔

 اپنے حلق خشک کیے ہم فقط اپنی باری کے منتظر ہیں۔ نہ تو ہم کھلم کھلا ان کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج کرنے کی سکت یا شعور رکھتے ہیں، نہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کا سوچ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کو روکنے کے لیے یکجا ہو سکتے ہیں۔ ہم مختلف دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اور ان دھڑوں میں سے کچھ جو ہیں، وہ ان خونخوار دشمنوں کو مجاہد گردانتے ہیں۔ مر جانے پر انہیں شہید کے لقب سے نوازتے ہیں۔ اپنے معصوم لوگوں کو بیدردی سے موت کے گھاٹ اتارنے والوں کے باعزت جنازے پڑھتے ہیں۔ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ “مرد ناداں پہ کلام نرم و نازک بے اثر”، ان لوگوں سے ہمکلام ہونے اور بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی بات کرتے ہیں۔ کبھی الیکشن اور چند ووٹوں کے عوض ہم یہ بتاتے شرماتے بھی نہیں کہ طالبان اور ہم ایک پیج پر ہیں۔

وہ بے دردی سے سکول کے بچوں کو شہید کرتے ہیں مگر یہ ان کی مالی امداد کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں جھجھکتے۔ یہ سب فضولیات جو آپ کی نظروں سے گزرتی ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہم سب کو ان حقائق کا اندازہ ہے۔ ہم اپنی منافقت کا شعور رکھتے ہیں۔ مگر کبھی سیاسی مفاد آڑے آجاتا ہے، تو کبھی ہماری دیگر کمزوریاں۔ سب سے بڑھ کر دکھ اور افسوس کی بات یہ کہ ابھی بھی ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔

کچھ ہی دن پہلے کی خبریں ملاحظہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا ایک سیاسی گروہ بہت کھلے دل سے طالبان کو سیاست میں قدم رکھ کر جمہوری طریقے سے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کی دعوت دیتا نظر آیا۔ یہ سب ہماری شعوری پستی، جہالت اورگمراہی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہم بیان باٰزی کرتے ہوئے بھی یا تو حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور یا پھر اپنی سیکیورٹی فورسز کے شہید جوانوں کی قربانیوں اور دہشت گردی کی آگ میں جھلس جانے والی معصوم جانوں کو یکسر فراموش کر چکے ہیں۔ یا تو یہ لوگ نفسیاتی طور پر شکست خوردہ ہو کر ان درندوں کو حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دے رہے ہیں یا پھر وہ واقعی میں ان کے ہمدرد اور حامی ہیں۔

ہماری ذہنی پستی اور حسد کا یہ عالم ہے کہ ایک معصوم بچی ملالہ یوسف زئی اگر جہالت کے خلاف آواز بلند کرئے اور اپنے بنیادی حق علم حاصل کرنے کا اعادہ کرتے ہوئے تعلیم کا حق مانگے اور سفاک طالبان کی بربریت کا شکار ہو کر سر میں گولی کھائے تو ہم اسے ڈرامہ قرار دیتے ہیں۔ اس بچی کا چہرہ بری طرح متاثر ہو کر بگڑ جائے مگر ہم پھر بھی ڈرامہ ڈرامہ کی رٹ سے باز نہیں آتے۔ پوری دنیا اسے لائق تکریم سمجھتے ہوئے ایوارڈز اور انعامات سے نوازے تو ہم اسے یہودی یا امریکی ایجنٹ ، غدار، اور پاکستان دشمن قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کی عزت اور نام کی بلندی کی خاطر فلاحی کام کرے اور بیانات دے تو ہم اسے اس کی سیاست قرار دیتے ہیں۔

کبھی ہمارا موقف ہوتا ہے کہ ملالہ کے ساتھ دیگر پاکستان کی بیٹیاں بھی زیر عتاب ہیں تو انہیں کیوں اتنی عزت و تکریم نہیں ملتی۔ تو جواباً فقط اتنی سی عرض ہے کہ کیا ایک ملالہ کو برداشت کرنے اور اسکی صلاحیتوں کی داد دینے کا ظرف اور حوصلہ ہم میں موجود ہے؟ کچھ نصابی ذہنوں کی سوچ تو اس حد تک متعصب ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ اگر ملالہ یوسف زئی کا تعلق پنجاب سے ہوتا تو پشتونوں سمیت دیگر صوبوں کے لوگ جو اسے پسند کرتے ہیں ان کی اکثریت ملالہ کو پنجاب غاصب کا نام دے کر مزید برا بھلا کہتی۔

اس بحث کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہوش کے ناخن لینے، شعوری پستیوں سے نکلنے اور خواب غفلت سے بیدار ہو کر فکری مغالطوں کو دور کرنے کا وقت ابھی باقی ہے۔ دشمن اور دوست میں تمیز کی حس کو بیدار کیجئے۔ دہشت گردی کی جنگ ہم سب کی مشترکہ جنگ ہے۔ ہمیں، سیاسی، عسکری اور سماجی طور پر متحد ہو کر انہیں شکست فاش دینی ہے نہ کہ انہیں جہموری یا کسی بھی طریقے سے اپنے سروں پر مسلط کر کے تاج حکمرانی پہنانا ہے۔

ہمیں ہر قسم کی صوبائی، لسانی، سیاسی، علاقائی یا مذہبی تفریق کو اپنے اندر سے نکالتے ہوئے ملالہ یوسف زئی جیسی لڑکیوں کو جو ملک کا نام روشن کریں، اپنا فخر جاننا ہے، اپنی پہچان ماننا ہے۔ ہمارے دوست وہی ہیں، ہمارے ہیرو وہی ہیں جو ہماری قوم کا نام دنیا میں روشن کر کے پاکستان کا پرچم فخر سے بلند کریں۔ وہ لوگ نہیں جو ہمارے معصوم لوگوں، افسروں، سیکورٹی اداروں کے جوانوں، سیاسی لیڈروں اور بچوں کا قتل عام کر ہمارے معاشرے میں خوف وہراس پھیلاتے ہیں اور پوری دنیا میں ہماری رسوائی کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).