مشعل خان۔۔۔ کتابچے میں مرا پتا، مرا نام لکھو


مشعل خان کے قتل کی خبر پرانی ہو چکی ہے۔ واٹس ایپ کے گروپ میں ابھی امریکہ کی طرف سے ننگر ہار پہ گرائے جانے والے بم کا چرچا ہے۔ کور کمانڈروں نے کلبھوشن کے معاملہ پہ طے کر لیا ہے کہ ریاست مخالف اقدامات پہ کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا۔ مجھے بس اتنا پتہ کرنا ہے کہ ریاست کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے۔

یہ پوچھنا ہے کہ وہ کون سے درجے کے عالم ہیں جو بندے اور خدا کے عین درمیان آ کر کھڑے ہیں۔

یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کس قماش کے دانشور ہیں جو حرمت کے ضمن میں لوگوں پہ زندگیاں حرام کر رہے ہیں ۔

اور یہ جاننا ہے کہ وہ کون سے طالب علم تھے جنہوں نے محض ایک اختلاف کی خاطر ایک دوسرے طالب علم کو اس حیوانیت سے مارا؟

مگر یہ تو سوال تھے، کچھ باتیں آپ کے علم میں لانا بھی مقصود تھا۔۔۔

آپ کو بتانا تھا کہ مشعل خان جب دم توڑ رہا تھا اس کا ایک ساتھی اس کے قریب پہنچا، مشعل نے ٹوٹتے لفظوں میں اس سے کہا

،” مجھ سے زیادہ، رسول پہ ایمان کسی اور کا نہیں۔۔۔ میں نے کبھی ایسے گناہ کا ارتکاب نہیں کیا۔۔۔مجھے ہسپتال پہنچا دو”

آپ کو یاد کروانا تھا کہ سینکڑوں کے اس ہجوم میں کوئی ایک شخص نہیں تھا جو اس پہ ترس کھاتا۔۔ بلکہ اس کے مردہ وجود پہ کئی لوگوں نے اپنا ایمان تاذہ کیا۔

آپ کو سمجھانا تھا کہ آپ کی تزویراتی گہرائی، ردالفساد اور سی پیک کے نعرے، سب کے سب اس ہجوم کے مار دو ، جلا دو کے شور میں دب گئے۔

آپ کو خبر دینی تھی کہ یہ سب ایک جامعہ میں ہوا اور جب درسگاہیں قتل گاہیں بن جائیں، تو معاشی استحکام سے زیادہ معاشرتی بقا کا بندوبست کرنا ضروری ہوا کرتا ہے۔

آپ کو یہ اطلاع بھی ہو کہ رات گئے جب مشعل کا جنازہ اٹھے گا تو ساتھ ہی اس کے آس پاس لوگوں کا حکومت پہ یقین بھی اٹھ جائے گا۔

آپ کو شاید پتہ نہ ہو کہ جب مشعل کو قبر میں اتارا جائے گا تو مجھ سمیت کئی لوگوں کا اس معاشرے پہ یقین بھی درگور ہو جائے گا۔

آپ کو بتاتا چلوں کہ جس ملک میں سوال جرم اور عقیدہ الزام ہو جائے، اس ریاست کو ہولی کی تقریریں، انصاف کے دعوے اور تئیس مارچ کے جہازوں سے زیادہ انسانوں کی فکر کرنی چاہیے،

پی ٹی وی کا ایک کھیل تھا۔۔۔”فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی”۔ استانی راحت، اپنی جواں سال بیٹی فہمیدہ کے ساتھ ایک دولتمند گھرکے دامن میں موجود ایک کمرے کے کوارٹر میں فہمیدہ کا جہیز جوڑتی رہتی ہے۔ اسی دوران گھر میں مالک مکان کی بیٹی کی شادی کا اہتمام ہوتا ہے۔ رسومات، انتظامات اور دیگر بندوبست میں ہونے والا اسراف دیکھ دیکھ کر بالآخر ایک رات فہمیدہ کو برین ہیمرج ہو جاتا ہے۔ آخری منطر میں استانی راحت، فہمیدہ کی موت کا ذمہ دار اپنے مالک مکان کو ٹھہراتے ہوئے تھانے دار سے ان کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کی درخواست کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہے ۔۔۔۔

گمان کی کسی پولیس چوکی میں، امکان کا کوئی محرر، مشعل خان کی ایف آئی آر کاٹ رہا ہے۔۔۔۔ ملزمان کے خانے میں۔۔۔ مذہب کے ٹھیکےداروں سے ریاست کے آئینی اور خود ساختہ ذمہ داروں تک ۔۔۔۔ سب کا نام درج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).