اس مرتبہ نیند نہیں آئی


بمشکل تمام دو گھنٹے نیند ہو پائی ہے۔ کوئی کروٹ ایسی نہیں تھی جس نے مشال خان کا ماتم نہ کیا ہو۔ اس کی روح کو میں نے اپنے اندر بے رحمی سے زخمی ہوتا ہوا محسوس کیا ہے۔ اس کی آخری سانسوں کو اپنے پیکر سے میں نے یوں جدا ہوتا ہوا محسوس کیا ہے جیسے کچھ بدسلیقہ لوگ کانٹوں میں پھنسے ہوے دامن کو بے دردی سے کھینچ رہے ہوں۔

مجھے اپنی سفاکیت کا اعتراف ہے۔ میں سائٹ ایریا کے میدان میں وکٹ کے پیچھے کھڑا تھا۔ بالر گیند پھینکنے کے لیے بال تول رہا تھا اور میں کمر باندھ رہا تھا۔ ابھی بالرنے قدم اٹھائے ہی تھے کہ اس کے پس منظر میں زورداردھماکے سے آگ کا ایک گولہ آسمان کو لپکا، دھول اڑی، کچھ پرزے ہواوں میں اڑتے ہوئے دکھائی دیے، ایک دم سناٹا طاری ہوا، حواس مکمل طور پر شل تھے، جائے حادثہ کی طرف قدم بڑھائے، اندازہ ہوا کہ یہ دھماکہ ہوا ہے اور فضاوں میں انسان کے چیتھڑے اڑے تھے۔ وہ شام انسانی اعضا اکٹھے کرتے، کراہتے زخمیوں کی چیخیں سنتے، امبولینس کے سائرن سہتے، ہسپتالوں ہر آتے جاتے ڈاکٹر کے چہرے پر امید آثار تلاش کرتے بسرہوئی مگر مجھے یاد ہے کہ صبح دم میری نیند معمول کے مطابق چلی آئی تھی۔

آپ کو کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر برامد ہونے والے عاشورہ کے جلوس میں ہونے والا دھماکہ یاد ہے؟ وہی جس میں زخمی عزاداروں کو اٹھاکر جب جناح ہسپتال پہنچایا گیا تو ایمرجنسی وارڈ کے دروازے پہ دھماکہ ہوا؟ تب میں ہسپتال کے دروازے پر تھا۔ آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ دھماکہ میرے پہلو میں ہوا تھا۔ زندگی کو ہسپتال کے در وبام پر بال بکھیرے ماتم کرتا دیکھ رہا تھا۔ مائیں جو چیخ رہی تھیں ان پر نئے صدمے نے سکوت طاری کردیا تھا۔ میں ایک دوست کی تیمارداری کو گیا ہواتھا۔ رات وہیں بسر ہوئی۔ مجھے ٹھیک طرح سے یاد ہے کہ میری کمر کی چوڑائی سے کم کی بینچ پر بھی نیند نے بانہیں گلے میں ڈال لی تھیں۔

سفاری پارک کے سامنے سمامہ شاپنگ مال ہے۔ یہ رمضان کی سب سے مبارک رات یعنی قدر کی رات تھی، جب خریداری کے لیے گیا۔ دوجوان موٹر سائیکل پر سوار آئے، مجھ سے دو قدم پہ کھڑے رکشے میں بیٹھے ایک سفید ریش بابا جی کے سینے میں گولیاں اتار گئے۔ بابا جی کو اس حال میں زمین پرگرتے دیکھا کہ ان کی جیب سے سکے لڑھکے جا رہے تھے۔ سچ کہوں تواس سفید ریش بابا جی کے حلیے میں مجھے اباجی مرحوم کا عکس دکھائی دے رہا تھا۔ اس حادثے کے دوران شاپنگ مال میں اول چیخ وپکار ہوئی، ایک سناٹا طاری ہوا، کچھ ساعتوں میں زندگی بحال ہوگئی۔ پاؤں کسی بھی طور مال کی طرف بڑھنے پہ آمادہ نہیں تھے۔ واپس گھر لوٹے۔ رمضان میں سحری کے بعد ہی سونے کی روایت ہے۔ مجھے یاد ہے میری نیند نے اس صبح بھی روایت نبھانے میں کسی حیل وحجت سے کام نہیں لیا۔

ایک قتل، جو میں کبھی کسی سے بیان نہیں کرپاتا، ابھی بیان کرنے کو جی چاہتا ہے۔ یہ سینے پہ رکھا ایک ناقابل بیان بوجھ ہے۔ یہ طالب علمی کا زمانہ تھا۔ عمر فکر سوچ غرض کہ کچھ بھی ایسا نہ تھا جس میں پختگی ہو۔ نشاۃ ثانیہ کا خواب آنکھوں میں سجائے گھومتے تھے۔ اسلامیہ کالج سے کچھ قدم دوری پہ ایک مذہبی عالم قتل کر دیے گئے۔ چاہنے والے مشتعل ہوگئے۔ اس لوٹ مار کے تصور سے اب بھی طبعیت ہراساں ہوجاتی ہے جو اس روز ہوئی تھی۔ آپ نے قائد اعظم کے مزار کے سامنے پی ایس او کا پیٹرول پمپ تو دیکھا ہوگا؟ یہاں ایک بابا جی سیکورٹی پہ مامور تھے۔ وہ ہر قیمت پر پمپ کو نذر آتش ہونے سے بچانا چاہتے تھے۔ ہم سڑک کی دوسری جانب تھے۔ کہیں سے گولی آئی اور بابا جی کے بھیجے میں اترگئی۔ اس رات نیند نہ آنے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی، کیونکہ جی ہی جی میں ایک سیکورٹی گارڈ کا قتل مجھے جائز محسوس ہوا تھا۔ موقع پر اس درد کو محسوس نہ کرنے کا جرم اب ضمیر کو کچوکے لگاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس باباجی کی روح اب میرا تعاقب کرتی ہے، مگر نیند متاثر نہیں کرتی۔

یہ کل کے حادثے میں ایسا کیا تھا کہ ہزار بلاؤں کو بھی نیند نے قابل التفات نہیں جانا۔ ایک کروٹ بھی ایسی حرام ہے جس میں سکون کا کوئی احساس ہو۔ اب سوچ رہا ہوں تو ایک بات سمجھ آرہی ہے کہ کل شب پہلی بار میں نے اپنے سینے میں ایک ماں کا دل دھڑکتا ہوا محسوس کیا ہے۔ جان نکال کے رکھ دی ہے اس احساس نے۔

قلمی گھیسٹا کاریاں کرتے کوئی نو برس تو ہوگئے، آج پہلی بار ہے کہ ان آخری سطروں پر آنکھیں اشکبار ہیں۔ ورق دھندلایا ہوا ہے، بالکل میرے گرد وپیش کے حالات کی طرح۔ مجھے شرم آرہی ہے، ورنہ میں ڈاکٹر اخترعلی سید کو فون کرکے پوچھنا چاہتا ہوں کہ سیدی میرے اعصاب مکمل طور پر چٹخ گئے ہیں کیا ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).