یہ کس کے لہو کی اشرفیاں ….


 ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا:

اپریل بڑا ظالم مہینہ ہے

مردہ زمین پر پھولوں کی پرورش کرتا ہے

خواہش اور یاد کو یکجا کرتا ہے

اور بے حس جڑوں کو بہار کے چھینٹوں سے جنبش دیتا ہے

پرکیسا دکھ اور کیسی اذیت ہے کہ وطن ِ عزیز میں یہ چھینٹے بہار کے نہیں ،خون کے ہیں۔ خون بھی وطنِ عزیز کے اُن ذہین نوجوانوں کا، جسے کبھی ہم جہاد کے نام پر، تو کبھی سوال کرنے کے جرم پر بہانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے ہیں۔ اہلِ عقل و اہلِ بصیرت! کیا یہ خون کے چھینٹے ہمارے شکست خوردہ مضمحل اعصاب کو مزید شل کردینے کے لیے کافی نہیں؟ کیا بین کرتی ماﺅں کے کلیجوں سے نکلنے والی آہیں اور سسکیاں ہم عرشِ بریں پر جانے سے روک سکتے ہیں؟ آپ اپنی منصفی کی جو چاہے تاویل پیش کریں تاریخ ہمیشہ سرمد و منصور کے قاتلوں کو قاتل ہی ٹھہرائے گی۔

وائے افسوس! کہ ہماری تعلیم بھی ہمیں  انسان بنانے سے قاصر رہی۔ ہماری درسگاہوں نے اب قتل گاہوں کا روپ دھار لیا۔ وہاں جہاں کبھی علم کی میراث تقسیم ہوا کرتی تھی، اب بو الہوسی و جہلِ مطلق کا کامل سکوت، نہتے لوگوں کی کربناک چیخوں سے بار بار ٹوٹتا چلا جاتاہے۔ مذہب کے نام پر دہلا دینے والی نفرت کا عفریت پورے جنون کے ساتھ ہمارے درمیان سے محبت اور اخلاص کو نگل رہا ہے اور ہم محض ہاتھ مَل مَل کر ہر روز ہونے والے نفرت کے ایک نئے سانحے کا نوحہ پیٹ رہے ہیں۔

کیسی بے چین رات تھی جو کل میں  نے گزاری ہے اور میں  سوچتی ہوں وہ کیا قیامت کی رات ہوگی جو اُس ماں نے کل گزاری ہے جس کے لختِ جگر کو سرِ راہ کئی انسان نما بھیڑیوں نے چند ہی ثانیوں میں  اُدھیڑ ڈالا۔ جس کا جرم محض اس کی سوچ ٹھہری تھی۔ تو کیا اب ہمیں  سبھی سوچتے اذہان کو مقفل کرنا ہو گا؟ ظلم کی گنتی میں  تو یہ بھی گنا جائے گا کہ انسانوں کی اس بستی سے کوئی انسان نہ نکلا، سب محض پتھر کے بت ہی نکلے، سر تا پا جن کے جذبے اور احساسات بھی ان کی تماشبین آنکھوں کی طرح پتھرا گئے تھے۔ جن کے کانپتے ہاتھ اگر اٹھے بھی تو، بچانے کو نہیں ، ہوش ربا مناظر کواپنے موبائلوں میں  مقید کرنے کو۔۔ کیا ہی وحشت ہے کہ جبر کا نفاذ کرنے والے اِن انسان نماﺅں سے کوئی کیونکر بچ نکلے، جن کا ہتھیار محض توہین و اہانت کے فتوے ٹھہرے۔ رہ رہ کے دُکھتے دل میں چند سوالات ٹیس بن کر اٹھتے ہیں کہ وہ کون سا مذہب ہے جس کے نام پہ ہم نے خون کے تقدّس اور انسانی جان کی حرمت کو یوں ارزاں بنا ڈالا؟

وہ کون سا مقدس مذہبی بیانیہ ہے جس کا درس، نسل در نسل صرف نفرت و شدت پسندی ٹھہری؟

وہ کون سے معتبرلوگ ہیں جو سنگ و خِشت اٹھا کر اِس مذہب کے رکھوالے بن بیٹھے؟

میں  جاننا چاہتی ہوں کہ خیر سگالی اور امن کے نعرے لگانے والے جب خود امن کی دھجیاں بکھیررہے ہوتے ہیں تو ان پر کون سا فتویٰ، کون سی تعزیر عائد ہوتی ہے؟

 دوسروں کو کافر ، ملحد اور الحاد کے طعنے دینے والے اپنے متعفن گریبانوں میں  جھانکنا کیوں پسند نہیں کرتے؟

فرد اور ریاست کے براہِ راست تعلق میں  آئے روز ایک نیا رخنہ، ایک نیاروزن کیوں وَا ہوتاجا رہاہے؟

اور یہ بھی کہ فرد کی جان و مال اور حقوق کے تحفظ کا نعرہ لگانے والے ریاستی ادارے وحشت و بربریت کے اس بھرپور مظاہرے میں  تماشائی کا کردار آخر کب تک ادا کرتے رہیں گے؟

بحیثیت قوم اگر فرد کی شناخت یہ دھرتی ہے تو اس سوہنی دھرتی پہ بہتے خون کے رنگ میں ہم کب تک ایک دوسرے کی مذہبی شناخت ڈھونڈیں گے؟

فیض صاحب نے سچ ہی توکہا تھا ”ہم جو تاریک راہوں میں  مارے گئے “۔۔محض اسی لیے مارے گئے کہ ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے محبت اور امن کی مشعل گل کر دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).