اپنے نوجوانوں کے نام


دل خون کے آنسو رورہا ہے۔ مشعل خان کو مار ڈالنا اور دیگر دو طالب علموں کو سخت زخمی کردینا کیا انسانیت ہے؟ کیا ملک سے انصاف اٹھ گیا ہے؟ کیا قوانین مردہ ہوگئے ہیں؟ کیا عقل و شعور ناپید ہوگئی ہے؟ آخر ہوکیا گیا ہے؟ کون ہے جو ہمارے کان بھر رہا ہے؟ کون ہے جس نے عقل و سمجھ پر تالے لگا دیے ہیں؟

تم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ ہو۔ لگتا ہے تعلیم نے تمھارا کچھ نہیں بگاڑا۔ تم میرے بچوں جیسے ہو۔ تمھیں اس مریضانہ کیفیت میں دیکھ کر میں رورہا ہوں۔ ہاں بیٹا یہ کوئی مثبت جذبہ، محبت اور عقیدت نہیں۔ یہ مرض ہے۔ یہ جرثومہ ہے جو تمھارے اندر تمھیں ہی کھاجانے کے لئے سرایت کیا جارہا ہے۔ اٹھاؤ نبیؐ کی تعلیمات کو، پڑھو قرآن کو، جائزہ لو نیک لوگوں کے درس کا، ہمیں کہیں کسی کو اپنے ہاتھوں قتل کرنے کا درس نہیں ملتا۔

اگر تم ہمارے نبیؐ محمدؐ کی محبت میں سرشار ہو تو میرے بیٹوں ان کی زندگی ان کے اسوہ حسنہ کو اپنے اعمال میں داخل کرو، ان کی سنت کو اپنی کارِ زندگی میں شامل کرو۔ ایک زندگی کا قتل انسانیت کا قتل ہے۔ کسی نے اگر بدکلامی کی ہے تو اسے سمجھاؤ، اسے مناؤ، اس کا دل اپنے عمل سے جیتو۔ اسے ملکی انصاف کے حوالے کرو۔ کسی پر ٹوٹ پڑنا، مارڈالنا وحشیانہ فعل ہے اس سے تمھیں نبیؐ کی شفاعت بھی نہیں ملے گی۔ یہ دنیا میں بھی نیک عمل نہیں گردانا جائے گا۔ اچھا مسلمان بننا ہے تو تقویٰ کا راستہ تمھارا منتظر ہے۔ عبادت، نیک اعمال تمھیں جنت کی طرف لےجائیں گے۔ غور سے پڑھ لو مرتد کو بھی فوری سزا نہیں دی جاتی۔ اسے بھی توبہ کا وقت دیا جاتا۔

میرے پیارے بیٹوں تمھیں کسی نے گمراہ کردیا ہے۔ شفاعت رسول صلعم ان کی محبت میں کسی کی جان لینے سے کبھی نہیں ملتی۔ اچھا مسلمان بننا ہے تو تمھیں زیادہ رحمدل اور انسانیت نواز بننا ہوگا۔ جو رحمت للعالمین ہے وہ کیسے چاہے گا کہ اس کے نام پر کسی کو جان سے ماردیا جائے۔

میرے بچوں اسلام کا اصلی پیغام ہر ایک سے شفقت سے پیش آنا ہے۔ جو اسلام کے نام پر درندگی، سفاکی اور بےرحمی کو فروغ دیتے ہیں درحقیقت وہ ہمیں راہ سے بھٹکارہے ہوتے ہیں۔ وہ اسلام کی نہیں اپنی خدمت کررہے ہوتے ہیں۔ جذبات کو قابو رکھنا عین انسانیت ہے۔ اپنے اطراف سکھ چین رواداری کی فضا قائم کرو۔ بربریت ہمیں دیمک کی طرح کھارہی ہے۔ اس دیمک کا علاج کرو۔ سب سے محبت کرنا سیکھو۔ نظریاتی اختلافات صحت مند معاشرے کی نشانی ہوتے ہیں۔ اس نشانی کا احترام ہمارا مذہب بھی سکھاتا ہے۔ اشتعال دلانے والے اور اشتعال کو اپنانے والے مہذب سوسائٹی کے قاتل ہوتے ہیں۔ ہم مسلمان ایک تہذیب اور اخلاقی تمدن رکھتے ہیں۔ اس ورثے کی حفاظت بچوں اب تمھارے سر ہے۔ رسول کے ناموس کی حفاظت ہمارا فرض ہے مگر اس کےلئے کسی کی جان اور قانون کو ہاتھ میں لینا اعلیٰ ظرفوں کا شیوہ نہیں۔

ہم اسؐ کی امت ہیں جس نے دشمن کو بھی معاف کرنا سکھایا ہے پھر وہ کیسے خوش ہوگا کہ اس کا نام لےکر کسی کا گلا کاٹ دیں۔ وہ میرا بھی نبیؐ ہے اور تمھارا بھی۔ تم بھی مسلمان ہو اور میں بھی۔ بچوں مجھے پاکستان سے ایسی خبریں دو کہ میرا سر فخر سے بلند رہے کہ یہ ہیں ہمارے بچے۔ ان لوگوں کو اپنے سے دور کرو جو وحشت کا بازار گرم رکھنا چاہتے ہیں۔ جو خون کی ہولی کھیل کر اسلام کی سربلندی کی بات کرتے ہیں۔ اسلام خون نہیں اخلاق کا طالب ہے۔ انسانیت کا طالب ہے۔ تم یونیورسٹی کے طالب علم ہو تمھارا ذہن پاکستان کا ذہن ہے۔ تمھاری سوچ پاکستان کی سوچ ہے۔ اس سوچ میں ایسی وسعت ہونی چاہیے کہ دنیا کا ہر انسانیت نواز تمھاری اور پاکستان کی تعریف کرے۔ خدارا سمجھ داری سے کام لو۔ فرقہ، مسلک اور شدت پسندی سے آگے بڑھو۔ ہر ایک کو جینے کا حق دو۔ مسائل کو لاقانونیت سے نہیں قانون کے دائرے میں رہ کر حل کرنا سیکھو۔ تم سب کسی کی اولاد اور کسی کی امت ہو انھیں اپنے اعمال سے دکھ نہ پہنچاؤ۔

میں سات سمندر پار ہوں مگر بےحد دکھی ہوں۔ خدارا اپنی صلاحیتوں کو سمجھو اسے اس خونریزی اور عدم برداشت کی نظر نہ کرو۔ تم ایک دوسرے کے دوست ہو۔ ایک دوسرے کو سمجھاؤ۔ محبت بڑھاؤ۔ سب کو جینے کا حق ہے۔ اس حق پر ڈنڈے لاٹھی اور ہتھیاروں سے وار نہ کرو۔ خدارا سنبھل جاؤ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).