دہرا معیار اور کھوکھلا احتجاج


 حلب جل رہا ہے، حلب جل گیا، حلب راکھ ہو گیا، مسلمانوں پر غیر ایٹمی حملہ بھی ہو گیا، کئی مسلمان شہید ہوگئے۔ پاکستان میں بہت احتجاج ہوا

یمن میں لاکھوں مسلمان بچے قحط سالی کا شکار ہو گئے، اقوام متحدہ پیٹ پیٹ کے تھک گیا کہ کچھ کرلو ورنہ یہ انسانی نسل کی سب سے بڑی تباہی بن جائے گی۔ ہمیں بہت افسوس ہوا۔

صدر ٹرمپ نے سات مسلمان ملکوں کے باشندوں پر پابندی لگا دی کہ یہاں کے مسلمان دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ہم بہت تلمائے

برما میں روہنگیا مسلمانوں کا بُری طرح سے قتل عام ہوا اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمان پناہ گزین بنگلہ دیش کی سرحد پار کرگئے۔ ہمیں اس پہ بھی بہت غصہ آیا۔

بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمٰن کی صاحبزادی نے کئی اسلام پسندوں کو پھانسی پر چڑھا دیا اور حکومتی ادارے باقی ماندہ اسلام پسندوں کی تاک میں ہیں۔ ہمیں بہت غصہ آیا۔

بھارت میں بابری مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ رام مندر کی داغ بیل ڈالی گئی اور ہزاروں مسلمان شہید کردیئے گئے۔ ہمیں اتحاد بین المسلمین کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی۔

بھارت کی ہی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ایک انتہا پسند ہندو وزیراعلیٰ ادتیا ناتھ یوگی کے وژن پر عمل کرتے ہوئے گائے کی نقل و حمل میں ملوث ایک مسلمان کو پسلیاں توڑ کر قتل کردیا گیا۔ یوگی کے رومیو سکواڈ نے ایک مسلمان لڑکے کو اس بنا پر قتل کردیا کہ وہ ہندو لڑکی سے پیار کرتا ہے۔ ہمیں پاکستان میں بیٹھ کر بھارت میں مقیم مسلمانوں کی حالتِ زار پر بہت دکھ ہوا۔

ہم نے پوری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے بُرے سلوک پہ احتجاج کئے، ہمیں غصہ آیا اور آنا بھی چاہئیے تھا۔

مگر ہم نے ایک لمحے کیلئے بھی سوچا کہ اختلافِ رائے رکھنے والوں، دوسرے عقیدے کے لوگوں اور اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک ہم پاکستان میں کر رہے ہیں کیا وہ ہمارا دُہرا معیار اور منافقت نہیں ہے؟ یوگی آدتیا ناتھ جو کچھ اتر پردیش میں مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے ہم بھی تو ویسا ہی سلوک یہاں بسنے والے ہندوئوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ مسیحی جوڑے کو ہم نے تندور میں جلا ڈالا۔ توہین مذہب کے الزام میں ہم نے گوجرہ اور لاہور میں پوری پوری مسیحی بستی کو آگ لگا دی۔ مردم شماری شروع ہوئی تو سکھوں کا نام ہی نہیں دیا گیا فارم میں۔ شیعوں سے ہم نفرت کرتے ہیں۔ احمدی برادری تو آئے روز ہمارے نشانے پہ ہے۔ ہم نے دوالمیال پہ احمدی عبادت گاہ پر حملہ کیا۔ پھر ہم نے ننکانہ صاحب میں ایک احمدی وکیل کو قتل کرکے ننکانہ صاحب کی سرزمین کو ایک شرپسند سے پاک کیا۔ پھر ہم نے لاہورکی سبزہ زار کالونی میں ایک احمدی کو قتل کیا۔ کل ہم نے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں ایک نوجوان طالب علم کو قتل کیا اور اگر پولیس ‘بروقت’ نہ پہنچتی تو ہم اس کی لاش بھی جلا چکے ہوتے۔

پوری دنیا میں مسلمانوں کو ڈریا جا رہا ہے، دھمکایا جا رہا ہے، مارا جا رہا ہے مگر ہم اپنے ملک میں اپنے لوگوں کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کسی تنقید کا مستحق نہیں؟ ہماری اس منافقت پر بھی کوئی پریس کانفرنس ہوگی، کوئی احتجاج ہوگا؟ کوئی مائی کا لعل اس پر بھی بینر اٹھائے گا؟ کوئی ہڑتال اس پر بھی ہوگی؟ اور کوئی اس کے خلاف بھی آواز اٹھائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).