مشال خان کو کس نے مارا۔۔۔؟


جمعرات دوپہر مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی سے خبر آئی کہ دو طلبہ گروپوں کے درمیان تصادم سے شعبہ ابلاغیات کا طالبعلم محمد مشال خان ہلاک ہو گیا ہے۔ ابتدا میں ٹی وی چینلز پر خبر بریکنگ نیوز کا درجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی، پھر دھیرے دھیرے خبر کی بُنت تبدیل ہوئی۔ پہلے کہا گیا کہ مشال خان پر ‘بلاسفیمی’ کا الزام تھا۔ مشتعل طلبا نے طیش میں آکر اسے سر عام مار ڈالا۔ پھر ‘بلاسفیمی’ کا لفظ غائب ہو گیا ۔ آہستہ آہستہ مشال خان کے بارے میں تفصیلات سامنے آئیں کہ اس کا تعلق صوابی سے تھا اور وہ ماس کام میں چھٹے سمیسٹر کا طالبعلم تھا۔ یونیورسٹی ایک ماہ سے وائس چانسلر سے محروم ہے۔ ماس کام کے سربراہ شیراز پراچہ سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ والدہ کی بیماری کے باعث وہ چند دنوں سے چھٹی پر تھے اور آج بھی وہ یونیورسٹی میں موجود نہیں تھے۔ مشال دبنگ تھا، منہ پھٹ تھا، سوز و ساز، شعر و شاعری، کتاب بینی، دلیل اور عقل ، صوفیا و لوک موسیقی کا دلدادہ تھا۔ نہ جانے اس نے ایسا کیا کہا، ایسا کونسا مواد سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ مذہب کے ٹھیکیدارجامعہ کے طالبعلم اس پر ٹوٹ پڑے۔ کہا گیا وہ غائب تھا، اسے ہوسٹل سے ڈھونڈا گیا، گھسیٹا گیا، ننگا کیا گیا، پتھر، ڈنڈے ، جوتے، مکے، لاتیں اور گملے یعنی جس کے ہاتھ جو آیا اس نے ثواب سمجھ کر اس کا استعمال مشال کے ننگے بدن پر کر ڈالا! خون بہہ رہا تھا، ننگی لاش اوند ھ منہ پڑی تھی کہ دور سے ٹولیاں اس جگہ پہنچیں کہ کوئی ثواب سے محروم نہ رہ جائے۔ عین اس وقت جب مشتعل ہجوم مردہ مشال کو آگ لگانے لگا، پولیس مداخلت پر مجبور ہوئی۔

شام چھے بجے کے خبرنامے میں دو تین ٹی وی چینلز کی ٹاپ سٹوری مشال کی ہلاکت تھی، لیکن خبر کی تفصیلات قدرے کم اور شاید ‘سینسر’ شدہ تھیں۔ سات بجے کے کسی پروگرام نے مشال کی شمع بجھنے کی بات نہ کی۔ سیاست ہی موضوع سخن رہا۔ ہم نے اپنی سی کوشش کی، مشال کی فیس بک وال پر درج جناب مبشر زیدی کی نظم ناظرین کو سنائی۔ نظم میں سوال تھا:

کچھ لوگ کہتے ہیں ،

کسی کے مرنے پر

موم بتی نہیں جلانی چاہیے

لیکن وہ یہ نہیں بتاتے

کہ آنکھ کا تارہ لاپتہ ہو جائے

تو روشنی کہاں سے لائیں؟

گھر کا چراغ بجھ جائے

تو پھر کیا جلائیں؟

آٹھ بجے اور دس بجے کے ٹاک شوز بھی دیکھنا نصیب ہوئے، چند ایک نے مشال کی موت کو اہم قومی موضوع جانا، باقی سیاست کی گھتیاں سلجھاتے رہے۔ خود کو عجب خامشی اور درد میں مبتلا پایا تو پریس کلب کا رخ کیا۔ یار لوگ آن بیٹھے۔ پوچھتے رہے کہ یار ‘اج مردان اچ کی ہویا اے؟’ کچھ بتایا اور کچھ نہ بتا پایا۔ سرائیکی وسیب کے ایک صحافی اور شاعر سرائیکی کلام سنا رہے تھے کہ معلوم ہوا کچھ بزرگ صحافی اورادیب’ پرلی نکڑ’ پر بیٹھے ہیں، سوچا وہاں چلتے ہیں شاید مشال کی یاد میں بزرگان اکٹھے ہوئے ہیں۔ وہاں رضی حیدر صاحب کے علاوہ دیگر احباب جرنلزم کے نام پر پلنے والی کالی بھیڑوں کی نشاندہی میں مصروف تھے۔ ہم وہاں سے بھی چل دئیے۔ لکشمی کا رخ کیا کہ انسان ہیں، بھوک لگی ہے۔ پیٹ پوچا کر لی جائے۔ کڑاہیاں، تکے بوٹیاں، ٹکا ٹک، چانپیں، کباب، سبھی کچھ تو پک رہا تھا ۔ ادھر ادھر تانک جھانک کی ۔ موضوع کھانے کا ذائقہ، لکشمی کے اطراف کھدی ہوئی سڑک اور دھول مٹی تھا۔ گھر آیا تو ماں جی منتظر تھیں۔ سلام عرض کیا تو پوچھنے لگیں: ‘کسے دی ماں دا لال مار دِتا ظالماں نے، ایہناں نوں نیندر کیویں آوے گی؟’ میرے پاس جواب نہیں تھا۔ کہا دعا کر دیا کریں، رات کافی ہو چکی، سو جائیں آپ کا شوگر لیول بڑھ جائے گا۔

سونے سے پہلے موبائل چیک کیا، معاشرے کی بظاہر پڑھی لکھی سیاسی، سماجی اور صحافتی ‘ایلیٹ’ پر مبنی وٹس ایپ گروپس دیکھے، مشال کی موت زیر بحث تھی، دور کی کوڑی لانے والے بے شمار اور عقل کو ہاتھ مارنے والےد و چار۔ سینکڑوں افراد بحث میں حصہ لے رہے تھے، گمان گزرا کل لبرٹی چوک یا پریس کلب پر تو ٹریفک جام ہو گی کہ دوست احباب مشال کی موت پر احتجاج کریں گے۔ صبح ہوئی تو محلے کے ایک پروفیسر صاحب سے قریبی سٹور پر ملاقات ہوئی، فرمانے لگے کہ میڈیا حقیقت جانے بغیر خوامخواہ مشال کی موت کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ آپ نے فلاں فلاں صاحب سے منسوب فیس بک پیغام پڑھا؟ کہا: نہیں جناب! کیا کہتے ہیں موصوف؟ انہوں نے موبائل کھولا اور دکھایا جہاں لکھا تھا: ‘الحمداللہ! مردان کے گستاخ کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا’ (یہ فلاں فلاں صاحب ایک نامی گرامی پیر نما سیاسی رہنما ہیں)

گھر آیا تو نماز جمعہ کی تیاری کے دوران چھوٹے بھائی نے مخصوص انگریزی ‘سلینگز’ کا استعمال کرتے ہوئے پوچھا کہ مشال کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ عرض کیا: وقت کم ہے، فوری مسجد کا رخ کرو! ماشااللہ پانچ چھے سو افراد کا اجتماع تھا، باریش عالم دین جناح کیپ پہنے واسکوٹ میں ملبوس منبر رسول پر بیٹھے شام میں کیمیائی ہتھیاروں سے مرنے والے معصوموں کا ذکر کر رہے تھے۔ انہیں کل رات افغان سر زمین پر امریکہ کی جانب سے گرائے گئے ‘دی مدر آف آل بمبز’کا خیال بھی گزرا، تاسف کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ نا جانے کتنے بے گناہ ٹنوں وزنی بم کی زد میں آئے ہوں گے۔ خطبہ جمعہ شروع کرنے سے پہلے انہوں نے ایک اہم سوال پر گفتگو ختم کی کہ ہمیں مل کر سوچنا ہوگا کہ آخر روئے زمین پر صرف مسلمان ہی کیوں پِس رہے ہیں؟

جمعے کے بعد شہر لاہور کے ایک معروف اور تاریخی کلب کا رخ کیا کہ صحافت، سیاست اور شعبہ وکالت کے سرکردہ حضرات کے ساتھ لنچ نصیب ہوتا ہے۔ (یہ وہ کلب ہے جہاں ریٹائرڈ بیورکریٹس کی کثیر تعداد تبدیلی اور انقلاب کی خواہاں ہے، اور ان کے نزدیک ملک میں بسنے والا ہر وہ شخص جو ان کے نظریات سے اختلاف رکھتا ہے ؛ وہ کرپٹ اور جاہل ہے)

وہاں بھی شام سے لے کر افغانستان ، امریکہ سے لے کر روس، پنامہ سے لے کر اورنج میٹرو لائن کیس، اور کلبھوشن سے لے کر کرنل حبیب ظہیر تک سب زیر بحث تھے۔ ہم نے کھانا کھایا اور آفس کی جانب چل دئیے۔ ڈیوس روڈ سے پریس کلب کی جانب ٹرن لیا ہی تھا کہ ٹریفک سست روی کا شکار ملی۔ اندازہ یہی تھا کہ رات سوشل میڈیا پرہزاروں کی تعداد میں مشال خان کی ہلاکت پر رنجیدہ خواتین و حضرات کا مجمع یہیں لگا ہو گا۔ دیکھا تو کوٹ مومن سرگودھا کے درجنوں افراد خواتین اور بچوں کے ہمراہ مقامی پولیس اور ایم این اے کے خلاف پلے کارڈز اٹھائے سراپا احتجاج تھے۔ چند قدم فاصلے پر کچھ سرخ پوسٹرز دکھائی دئیے، سیاہ چشمے پہنے چھتریوں کے سائے تلے گنتی کے کچھ لوگ مشال خان کے کی ناحق موت کے خلاف خاموش احتجاج کر رہے تھے۔ افسوس۔۔! ایک بھی چہرہ شناسا نہ ملا۔ آفس پہنچا تو معلوم ہوا چئیرمین سینٹ نے وزرا کی غیر حاضری اور ایوان کے معاملات میں عدم دلچسپی کے خلاف احتجاجا اپنے عہدے پر کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ وزیر اعظم جیکب آباد کے دورے پر ہیں۔ جناب عمران خان گلیات میں گھوم پھر رہے ہیں لیکن انہوں نے مشال کی ہلاکت پر سختی سے نوٹس لیا ہے اور افغانستان میں امریکی بم گرائے جانے کی بھی مذمت کی ہے۔ پرویز خٹک صاحب نے مشال کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کر تے ہوئے کہا ہے کہ یہ کسی کا ذاتی یا شیطانی فعل ہو سکتا ہے۔ بلاول بھٹو کی مذمت بھی نیوز الرٹ میں چل رہی ہے۔ اور تو اور ا سپاٹ فکسنگ کے مرکزی کردار ناصر جمشید منظر عام پر آچکے ہیں اور انکا ‘ایکسکلوزیو’ ویڈیو بیان بھی ہر بلیٹن میں نشر کیا جا رہا ہے۔

اور آپ میں سے کچھ سر پھِرے اب بھی سوچ رہے ہیں کہ ہائے۔۔ مشال خان کو کس نے مارا اور کیوں مارا؟

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami