یونیورسٹی انتظامیہ نے مشال خان کو ملزم قرار دے دیا


مرادن کی عبدالولی خان یونیورسٹی کی انتظامیہ نے طلبہ کے تشدد سے ہلاک ہونے والے مشال خان پر اس کی موت کے بعد گستاخی کا الزام عائد کر دیا ہے۔ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ رجسٹرار کی جانب سے ویب سائٹ پر جاری نوٹی فکیشن میں، جس پر 13 اپریل کی تاریخ درج ہے، کہا گیا کہ ’شعبہ صحافت کے تین طلبہ عبداللہ، مشال خان اور زبیر کی جانب سے گستاخانہ سرگرمیوں کے معاملے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔‘

نوٹی فکیشن کے مطابق ’ان طلبا کو عارضی طور پر معطل کیا جاتا ہے اور اگلے احکامات تک ان کی یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔‘

یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مبینہ گستاخی کی تفصیلات یا طالب علم کے قتل کی نوٹی فکیشن میں مذمت نہیں کی گئی۔  عبدالولی خان یونیورسٹی کے فوکل پرسن فیاض علی شاہ کے مطابق نوٹی فکیشن تشدد کے واقعے کے بعد جاری کیا گیا گیا۔

فیاض علی شاہ سے جب پوچھا گیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے مقتول طالب علم کو کیوں معطل کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’غلطی سے مشعال کا نام نوٹی فکیشن میں شامل ہوا۔‘

ڈی آئی جی مردان عالم شنواری کے مطابق ہلاک ہونے والے طالب علم مشال خان پر الزام تھا کہ اس نے فیس بک پر ایک پیج بنا رکھا تھا، جہاں وہ توہین آمیز پوسٹس شیئر کیا کرتا تھا۔ اسی الزام کے تحت مشتعل طلبہ کے ایک گروپ نے مشعال پر تشدد کیا، جس کے نتیجے میں طالب علم ہلاک ہو گیا۔

واقعے کے بعد یونیورسٹی سے متصل ہاسٹلز کو خالی کرالیا گیا جبکہ یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (مردان) ڈاکٹر میاں سعید کے مطابق اس واقعے کے بعد سے 45 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).