مردان میں مذہبی انتہا پسندی کا ہولناک سانحہ


مردان سے ایک افسوسناک خبر موصول ہوئی ہے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کے ہوسٹل پر دھاوا بول کر طالب علموں کے ایک گروہ نے ایک 23 سالہ طالب علم کو تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا جبکہ ایک دوسرا نوجوان اس حملہ میں شدید زخمی ہوا ہے۔ حملہ آور نوجوانوں کو شبہ تھا کہ مقتول طالب علم مشال فیس بک پر توہین مذہب پر مبنی مواد پوسٹ کرتا تھا۔ لیکن پولیس کے پاس ان دونوں طالب علموں کے خلاف توہین مذہب کے حوالے سے کوئی شکایت موجود نہیں ہے۔ نہ ہی حملہ آوروں میں سے کسی کے پاس کوئی واضح ثبوت تھا۔ انہوں نے یونیورسٹی میں گردش کرنے والی افواہوں پر یقین کرتے ہوئے ایک نوجوان کو بے دردی سے ہلاک کر دیا۔ مرنے والے نوجوان طالب علم کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی اسے مذہب کے بارے میں توہین آمیز گفتگو کرتے نہیں سنا۔ خبروں کے مطابق اس حملہ میں طالب علم تنظیموں کے رہنما بھی ملوث ہیں جنہوں نے طالب علموں کو اشتعال دلایا اور اس سنگدلانہ فعل پر آمادہ کیا۔ بعض خبروں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مرنے والے طالب علم مشال اور زخمی ہونے والے طالب علم عبداللہ پر احمدی ہونے کا شبہ تھا۔ تاہم بعض چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ جب مشتعل گروہ نے حملہ کیا تو عبداللہ نے بتانے کی کوشش کی کہ وہ احمدی نہیں ہے۔ لیکن حملہ آور اس کی کوئی بات سننے کےلئے تیار نہیں تھے اور وہ اسے زد و کوب کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں ہوسٹل میں مشال کی موجودگی کا پتہ چلا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہو گئے اور تشدد کرکے اسے ہلاک کر دیا۔ مرنے والے نوجوان کی لاش پر بندوق کی گولیوں کے نشان بھی ہیں۔ مشتعل ہجوم مشال کی لاش کی بے حرمتی کرتا رہا۔ وہ اسے جلا دینا چاہتے تھے لیکن پولیس کی مداخلت سے وہ ایسا نہ کر سکے۔

یہ تشدد یا لڑائی جھگڑے کا عام سا واقعہ نہیں ہے۔ اس سانحہ میں وہ مزاج ملوث ہے جو ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجہ بنا ہوا ہے۔ حکومت بار بار وعدے اور اعلان کرنے کے باوجود مذہبی شدت پسندی کی روک تھام کرنے میں پوری طرح ناکام ہے۔ وزیراعظم کے اکا دکا بیانات اور وزیر داخلہ کے گیدڑ بھبھکیوں نما وعدوں کے باوجود ملک میں مذہبی گروہ نفرت پھیلانے، حملے کرنے اور ہلاک کرنے جیسے اقدامات میں ملوث ہیں۔ اس شدت پسندی کی وجہ سے ملک میں قانون کے احترام اور نظام کے تحت قصور واروں کو سزا دلوانے کا تصور موہوم ہو چکا ہے۔ مذہب کے نام پر ہر شخص اور ہر گروہ کو من مانی کرنے کا حق حاصل ہے۔ نہ پولیس ایسے عناصر کا راستہ روکتی ہے اور نہ ہی سماج سدھار کی کوئی تحریک اس رویہ کو تبدیل کرنے میں کوئی کردار ادا کر پائی ہے۔ مذہبی رہنما تشدد اور دہشت کی مذمت ضرور کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اقلیتی عقیدوں کے خلاف سخت ترین گفتگو کرنے اور انہیں مسترد کرنے میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ ملک کی سب اقلیتیں اکثریتی آبادی کی شدت پسندی کے ہاتھوں تنگ ہیں لیکن حکومت ان پر ہونے والے حملوں اور ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کو روکنے میں ناکام رہتی ہے۔ سندھ حکومت نے چند ماہ پہلے ہندو لڑکیوں کے اغوا کی روک تھام کےلئے زبردستی تبدیلی مذہب کے خلاف ایک قانون منظور کیا تھا لیکن ملک کے مذہبی لیڈروں نے اس پر اس قدر ہنگامہ آرائی کی کہ سندھ حکومت کو یہ قانون واپس لینا پڑا۔ صوبے کی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ اس قانون میں ترمیم کے بعد اسے نافذ کیا جائے گا۔ لیکن وہ وعدہ ابھی تک ایفا نہیں ہوا۔ مذہبی گروہوں کے مقابلے میں سیاسی لیڈروں کی یہی کمزوری دراصل ملک میں حالات کی خرابی کا سبب بنی ہوئی ہے۔

ملک میں توہین مذہب کے الزامات پر ہونے والے صریح مظالم کے باوجود حکومت اس قانون پر نظر ثانی کرنے کا حوصلہ نہیں کرتی۔ ملک میں صرف مذہبی لیڈر ہی نہیں بلکہ سیاستدان اور اعلیٰ عدالتوں کے جج بھی مذہب کے نام پر لوگوں کو مشتعل کرنے اور ماحول خراب کرنے میں مصروف ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کی روک تھام کے حوالے سے ایک مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے ہر وہ حرکت کی جس کی کسی جج سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حرمت اور تقدس کی حفاظت کا اعلان کرتے رہے۔ حالانکہ ملک میں اس بارے میں قطعاً دو رائے موجود نہیں ہیں۔ حکومت کے وزیر ہوں یا اعلیٰ افسر سب عام طور سے مسلمان ہیں اور حرمت رسول کو اپنی جان و مال سے عزیز رکھتے ہیں۔ اور یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے مواد کا تعلق ایک ایسی ٹیکنالوجی سے ہے جس پر امریکی اور مغربی کمپنیوں کو دسترس حاصل ہے۔ اس کے باوجود متعلقہ جج نے کئی ہفتے تک اس معاملہ کو خبروں میں جگہ بنانے کےلئے استعمال کیا۔ ان کے رویہ اور طرز عمل سے نہ صرف یہ واضح ہوا کہ ملک کی عدالتوں میں قانون کی بجائے نعروں اور جذبات کا راج ہے اور یہ کہ انصاف کی مسند پر بیٹھا ہوا صرف ایک جج ہی مسلمان ہے جو باقی سب مسلمانوں کے عقیدہ کے بارے میں کھلم کھلم شبہ کا اظہار کرتا رہا۔ نجانے متعلقہ جج کو اس کا احساس ہے کہ نہیں لیکن یہی طرز عمل انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس کے علاوہ کسی صاحب ایمان اور انصاف کی مسند پر بیٹھنے والے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے ترازو کے ایک پکڑے میں اپنا اور دوسرے میں حکومت کے اہلکاروں کے ایمان کو رکھ کر حب رسول کے نعرے لگائے۔

مردان میں رونما ہونے والے سانحہ میں یہ بات زیادہ قابل تشویش ہے کہ اس کا ارتکاب یونیورسٹی کے طالب علموں نے کیا ہے جنہیں معاشرہ کے باشعور طبقہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ کسی بھی قسم کی قانون شکنی کی روک تھام کےلئے پولیس یا یونیورسٹی کے حکام سے رابطہ نہیں کیا بلکہ ان کے پاس دو طالب علموں پر حملہ کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اگر یہ بات کسی کے علم میں تھی کہ کسی بھی شخص نے توہین مذہب پر مبنی مواد سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا ہے تو آسانی سے اس کے خلاف شکایت کرکے اسے سزا دلوائی جا سکتی تھی۔ ملک میں توہین مذہب کے انتہائی سخت قانون کے علاوہ سائبر کرائمز ایکٹ بھی نافذ ہو چکا ہے۔ کوئی بھی شخص ان قوانین کی خلاف ورزی پر سزا سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ لیکن توہین مذہب کا الزام لگانے والوں کا یہی وطیرہ اس معاشرہ کا شیرازہ بکھیرنے کا سبب بن رہا ہے کہ وہ کسی بھی قانون شکنی کی شکایت کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ بلکہ خود ہی الزام عائد کرتے ہیں اور ملزم کو صٖفائی دینے اور اپنا موقف واضح کرنے کا موقع دیئے بغیر اسے ہلاک کرکے انصاف فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ اس مزاج کی بدترین مثال 2011 میں ممتاز قادری کے ہاتھوں اس وقت پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کا قتل ہے۔ اگرچہ بعد میں سپریم کورٹ نے ممتاز قادری کو قتل اور دہشت گردی کے الزام میں سزائے موت دی تھی اور اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اب بھی طاقتور مذہبی گروہ ممتاز قادری کو درست اور سلمان تاثیر کو قصور وار قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ممتاز قادری نے قانون کو ہاتھ میں لے کر بالکل درست اقدام کیا تھا۔ جب تک ملک میں مذہب کی ایسی تفہیم عام کرنے والے مذہبی عالم موجود رہیں گے، اس وقت تک گورنر بھی قتل ہوتے رہیں گے اور مردان یونیورسٹی میں سامنے آنے والا سانحہ بھی دہرایا جاتا رہے گا۔

کم فہم اور مفاد پرست مذہبی رہنما اور مجبور اور بے بس سیاستدان ملک میں بے یقینی اور قانون کو جوتے کی نوک پر رکھنے کی ایسی افسوسناک روایت کو پروان چڑھا رہے ہیں جو مسلسل ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ اس رویہ سے ایک طرف فرقہ واریت کو فروغ مل رہا ہے، عقیدہ کے نام پر محبت اور احترام کی بجائے نفرت اور انتقام کا مزاج عام کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف یہ انتہا پسندی دہشت گرد عناصر کو پروان چڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔ اس صورتحال میں ملک کی اقلیتوں کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے دعوے اس وقت تک کھوکھلے ثابت ہوتے رہیں گے جب تک ملک سے مذہب کے نام پر قتل کرنے ، اشتعال پھیلانے اور نفرت عام کرنے کا کام نہیں روکا جاتا۔ آج مردان میں مشتعل طالب علموں کا اٹھایا ہوا قدم حکومت کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے علاوہ فوج کی طرف سے دہشت گردی ختم کرنے کی کوششوں پر پانی پھیرنے کے مترادف بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali