مشال خان کے نام ایک تعزیتی خط


محترم مشال خان

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،

آپ کی ہلاکت کی اطلاع ملی، انتہائی دکھ ہوا۔ آپ کو اپنے پر حملہ کے بارے میں تو پتا ہی ہوگا۔ لیکن ہم لوگوں نے ہوسٹل کے باہر وہ وڈیوز بھی دیکھیں جس میں ہجوم اللہ اکبر کے نعرے لگا کر آپ کو برہنہ کرنے کے بعد آپ کی لاش کی بے حرمتی کر رہا تھا۔ مشال، ان دو جملوں سے آپ کو یہ تو پتا لگ گیا ہو گا کہ آپ کا قتل ان لوگوں نے کیا جو اپنے آپ کو اسلام کے فدائی سمجھتے ہیں۔ آپ ہر الزام تھا کہ آپ نے فیس بک پر مذہب کے بارے میں توہین آمیز باتیں کیں ہیں۔

مشال میں نہیں جانتا کہ آپ پر حملہ کرنے والے چار، پانچ سو لوگوں میں سے کتنوں نے آپ کی فیس بک پوسٹس دیکھیں۔ لیکن میں نے اپنی آنکھ پر تعصب کی عینک لگا کر ‘پاکستانی معیار’ کا توہیں آمیز مواد دیکھنا چاہا لیکن نہیں مل سکا۔ ہو سکتا ہے ان 5 ہزار لوگوں کو بروقت معجزانہ طور پر کشف ہوا ہو کہ آپ گستاخ ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھ کر میں نے گستاخ کی سزا قرآن میں ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ قرآن کریم میں 150 مقامات پر کفر کا ذکر ہے لیکن ایک بھی مقام پر مجھے اس کی دنیاوی سزا کا ذکر نہیں ملا۔

مشال، اگر پاکستانی قانون میں آپ کے اعمال کی سزا موت ہی تھی تو تب پھر میں نے تاریخ اسلام کا جائزہ لیا اور ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملا کہ ہمارے پیارے آقا یا ان کے صحابہ نے اس طرز پر گلیوں میں ہجوم بلا کر کسی کا قتل کیا ہو۔ اوہ، میں نے باقی مذاہب کا بھی جائزہ لیا تو جہالیت کے زمانہ میں ایسی مثالیں ملیں کہ نعش کی بے حرمتی کی گئی۔ مشال آپ کے واقعہ کو میں نے جانوروں کے چینل سے مقابلہ کر کے دیکھا تو مجھے ان میں بھی اتنی سرد مہری نظر نہیں آئی۔

مشال آج آپ کا جنازہ تھا۔ جس میں چند دوست بڑی ہمت کرکے شامل ہوئے کیونکہ آپ توہین مذہب یا احمدی ہونے کے الزام میں قتل ہوئے تھے۔ یہ دونوں باتیں ثابت نہ ہوسکیں۔ ترجمان جماعت احمدیہ نے آپ کی ہلاکت کو احمدی کی ہلاکت تاحال قرار نہیں دیا۔ توہین بھی ثابت نہیں لیکن پھر بھی جنازے میں لوگ کم کیوں؟

مشال ، ممتاز قادری پر تو قتل کا الزام پاکستانی عدالت میں ثابت ہوا اور لاکھوں لوگوں نے اس قاتل کے جنازہ میں شرکت کی، اسی کی یاد میں آپ کے ہوسٹل میں ایک کانفرس بھی منقعد ہوئی۔

مشال خان، آپ کے کیس میں لوگوں نے قتل کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لیا کیوں کہ وہ پاکستانی قوانین کو شاید اسلام کے منافی سمجتھے ہیں۔ اور ممتاز قادری کے کیس میں بھی لاکھوں لوگ اسی لئے آئے کہ وہ اس قانون کو کافرانہ سمجھتے ہیں۔ یہ قانون صرف ایک ہی صورت میں اسلامی ہے کہ ان کی من مانی کو راستہ دے ورنہ یہ فدایان اسلام اس قانون کی پرواہ نہیں کرتے۔

کل آپ کے قتل کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مستقبل کا بھی ایک اور بار قتل ہوا۔ آپ کے یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے لوگوں نے آپ کی پروفائل دیکھے بنا آپ کو مار ڈالا۔ جو قوم کسی کو قتل کرنے سے پہلے اتنا پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتی، انہوں نے قرآن کیا پڑھا ہو گا اور اس کے مطالب پر کیا غور کیا ہو گا۔

میں نے آپ کی فیس بک پروافائل میں دیکھا کہ آپ خود کو انسان دوست کہتے تھے۔ آپ کے مارنے والوں نے ثابت کیا کہ وہ درندہ صفت ہیں جو انسانوں کی پرواہ نہیں کرتے۔

مشال ہم جانتے ہیں کہ کالجز اور یونیورسٹیز وغیرہ میں ہنگاموں کے لئے طلباء تنظیم کے لوکل صدر یا جنرل سیکرٹری کا کال آتی تھی کہ فلاں جگہ اتنے بجے پہنچ جاو۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے با غیرت حکمرانوں نے اب تک ان ناسوروں کو ڈھونڈ نکالا ہوگا اور شاید ان کا کچھ حساب کتاب بھی کر لیں گے۔ لیکن یہ ہر سامنے والے بندے کے اعتقاد کا خود فیصلہ کر کے ماد دینا اس پر حکومتی اداروں نے سلمان تاثیر کی ہلاکت کے بعد بھی کچھ نہیں کیا اور اب بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

اس رحمت عالم ابرکرم کے یہ کیسے متوالے ہیں

وہ آگ بجھانے آیا تھا یہ آگ لگانے والے ہیں

 میں دعا کرتا ہوں کہ جو غم آپ کے گھر والوں نے دیکھا، آنئدہ کسی کو ایسا غم نہ دیکھنا پڑے۔ وہ بے حس حکمران جو معاشرتی سرطان کو ٹھیک کرنے میں سراسر ناکام ہیں اور جنہوں نے آپ کو براہ راست زدوکوب کیا وہ خود بھی اپنے بچے کو ادھر رکھ کر سوچیں تو ان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔

مشال اس طرح کی قربانیاں قوموں کو جلا بخشتی ہیں۔ لیکن ایسے ہجوم جو خود کو قوم سمجھتے ہیں وہ اسی آگ میں جل بھن جاتے ہیں۔

 آپ کا غم خوار

ایک پاکستانی شہری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).