چاکلیٹ کیک اور دوسروں کا دکھ


 5 جون 1944 ء…. پیر کا دن تھا۔ فرانس میں نار منڈی کے مقام پر اتحادی فوجوں کا حملہ 6 جون 1944ءکی صبح پو پھٹنے سے کچھ پہلے شروع ہونا تھا۔ عین اس وقت لاکھوں اتحادی فوجی ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کے ذریعے انگلش چینل پار کر رہے تھے۔ برطانیہ کا وزیراعظم ونسٹن چرچل رات گئے اپنے دفتر سے اٹھ کر خواب گاہ میں آیا ۔ اس کی بیوی گہری نیند میں تھی۔ چرچل اپنی خودنوشت کی چھٹی جلد میں لکھتا ہے۔ میں نے کلیمنٹائن کی طرف دیکھا جو اس تاریخی موقعے سے بے خبر سو رہی تھی۔ ’مجھے خیال آیا کہ اسے کیا معلوم کہ کل سورج چڑھنے سے پہلے نارمنڈی کے ساحل پر ہزاروں کڑیل جوان لاشوں میں تبدیل ہو چکے ہوں گے‘۔ چرچل اپنے فیصلے کے نتائج محض جانتا ہی نہیں تھا ، انہیں انسانی سطح پر محسوس کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا تھا۔ جنگ تشدد کی بدترین شکل ہے۔ فیصلہ کرنے والے کی میز پر بچھے نقشے پر ایک نشان کی معمولی حرکت سے جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ گھر جل جاتے ہیں اور بچ رہنے والے ،چاہیں بھی، تو جنگ سے پہلے کی دنیا میں لوٹ نہیں سکتے۔ جنگ میں قبروں کی فصل اگتی ہے۔ جنازے لوٹ کر آتے نہیں…. نارمنڈی پر حملے کی یہ رات اور ونسٹن چرچل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان پڑھ کر یاد آئے کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے شام کے فضائی اڈے پر حملے کا حکم چینی صدر کے ہمراہ چاکلیٹ کیک کھاتے ہوئے دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ غالباً یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ ان کے اعصاب بے حد مضبوط ہیں اور یہ کہ وہ بڑے سے بڑا فیصلہ ایک معمولی حکم کی صورت میں دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے چاکلیٹ کیک میں دھنسا ہوا چمچ شام کی زمین پر 59 میزائلوں کی صورت میں نمودار ہوا۔مرنے والوں کی تعداد معلوم نہیں۔ تاہم چند روز بعد پینٹا گون نے اعتراف کیا ہے کہ شام میں ایک حملے کے دوران غلطی سے امریکی افواج کے اتحادی اٹھارہ فوجی مارے گئے۔ اس دوران میں خبر آئی کہ 13اپریل کو افغانستان میں ننگر ہار کے مقام پر امریکی افواج نے 9800کلوگرام وزنی بم گرایا ہے۔ دنیا کا یہ سب سے طاقتور غیر ایٹمی بم ایک میل کے دائرے میں آنے والی ہر شے کو فنا کر دیتا ہے۔ 13 اپریل ہی کی شام خبر آئی کہ مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علموں نے اپنے ایک ساتھی کو اہانت مذہب کے الزام میں قتل کر ڈالا۔ قتل کے طریقہ کار کو انگریزی میں lynch کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے۔ ہماری روایت میں
اس بربریت کے لیے کوئی لفظ نہیں۔

کل 13 اپریل تھا ۔ ٹھیک اٹھانوے برس پہلے امرتسر کے جیلیانوالہ باغ میں بریگیڈیئر ڈائر نے نہتے ہجوم پر بندوقیں کھول دی تھیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چار سو سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ امرتسر کی زمین پر بہنے والا یہ بے گناہ لہو برطانوی تاج کو لے ڈوبا۔ بریگیڈیئر ڈائر نے اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے بار بار زور دیا کہ اس نے فیصلہ کرنے میں چار سیکنڈ لگائے۔ مرنے والوں کی چیخ و پکار کے شور میں اسے اپنے سپاہیوں سے بات کرنے میں دقت پیش آرہی تھی ۔ ہنگامہ فرو ہونے کے بعد اس نے اپنے سپاہیوں سے چند مزید راﺅنڈ چلانے کے لئے کہا اور اطمینان سے اپنی گاڑی کی طرف چلا گیا۔ 25 مارچ 1971 ءکی رات ختم ہو رہی تھی۔ صدیق سالک کی روایت ہے کہ مشرقی پاکستان میں جنرل ٹکا خان نے اپنے دفتر کے برآمدے میں آکر کہا ۔ اخاہ! کوئی بھی تو نہیں۔ مارشل لاءہیڈ کوارٹر میں کسے ہونا تھا ۔ لاشیں تو ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑی تھیں۔ سٹالن کی سنگ دلی ضرب المثل تھی۔ اس نے کہا تھا کہ ایک قتل ایک انسان کی موت ہوتی ہے اور دس لاکھ اموات محض ایک ہندسہ۔ ہزاروں برس گزر چکے ہیں ہم انسان یہ سبق نہیں سیکھ پائے کہ موت ہندسے میں تبدیل نہیں ہوتی، تاریخ کے رگ و پے میں اتر جاتی ہے۔ موت کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا ، موت کی گروہی شناخت نہیں ہوتی، موت مکالمہ نہیں کرتی۔ تشدد اور موت کو جائز سیاسی طریقہ کار سمجھنا ہی فسطائیت ہے۔

احمد بلال بہت اچھے دوست ہیں۔ اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ کئی برس پہلے میں نے بلال سے پوچھا ، ڈاکٹر صاحب بریگیڈیئر ڈائر تو غیر ملکی حکمران تھا ۔ اس کی نفسیات جارج آرویل کی تحریروں سے سمجھی جا سکتی ہے۔ لاہور کے قلعے اور دوسری عقوبت گاہوں میں آزادی کے مجاہدوں کو اذیت دینے والے اہلکاروں کی نفسیات کیا تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایاکہ اہلکار خود کو حکومت کے طور پہ دیکھتا ہے۔ کچھ ذاتی انا اور تحکم کے پہلو بھی ہوتے ہیں لیکن فیصلہ کن عنصر یہ احساس ہوتا ہے کہ ریاست کے وسائل لامحدود ہیں اور محکوموں کو کچلنا آسان ہے۔ لاہور پریس کلب کے باہر ایک شام کچھ ڈنڈے کھانے کے بعد میں نے پولیس کی وردی میں ملبوس افتخار سے پوچھا کہ ’چھوٹا سا ہجوم تھا۔ اس طرح لاٹھی چارج کی ضرورت کیوں پیش آئی‘۔ مسکرا کر بولا’ گرمی بہت تھی۔ میں نے تمہارے لیڈر صاحب سے کہا تھا کسی اور دن جلوس نکال لینا۔ کم بخت کا بچہ مانا نہیں۔ میں نے دفتر سے نکلتے ہوئے سوچ لیا تھا کہ اسے سبق سکھانا ہے‘۔ عارف اقبال بھٹی کی شہادت کے بعد ایک معروف وکیل کو کسی اور کی موت پر خوش ہو کر دوستوں سے گلے ملتے بھی دیکھا۔ ہائیکورٹ کے احاطے میں یہ وہی جگہ تھی جہاں کئی برس بعد بھائیوں نے اپنی ہی بہن کو اینٹیں مار کر قتل کر دیا تھا۔ ہجوم کی نفسیات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ تشدد کرنے والے کی ذہنی کیفیت بھی کچھ ایسا نامعلوم مظہر نہیں۔ بنیادی نکتہ طاقت کے استعمال پر اختیار کا ہے۔ ہمارے ملک میں سوزن سونتاگ کی مختصر کتاب ’دوسروں کے دکھ کے بارے میں ‘ بہت سوں نے پڑھ رکھی ہے۔ 2003 ء میں چھپنے والی اس کتاب میں سوزن سونتاگ نے جنگ اور تشدد کی فوٹو گرافی کو موضوع بنایا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فوٹوگرافی کے موضوع پر اس کتاب میں کوئی تصویر نہیں تھی۔ سوزن سونتاگ کا موقف تھا کہ تصویر دوسروں کے دکھ کی مکمل ترسیل نہیں کرتی۔ دکھ کے ابلاغ کے لیے انسانی معاشرے میں اس سیاسی بیانئے کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو بھارت میں کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ ایک انسان کی قیمت گائے کے احترام سے زیادہ نہیں۔ جو امریکا میں رنگ دار افراد کو گوروں سے کمتر سمجھتا ہے۔ جو اپنے عقیدے کے ہم خیال افراد کو دوسروں سے زیادہ انسان سمجھتا ہے۔ جو دوسروں کی آزادیوں کا احترام نہیں کرتا۔ جو دوسروں کے لہو میں اپنی پارسائی کا جھنڈا رنگنا چاہتا ہے۔ جو مقصد کو ذرائع سے بالاتر بتاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ چینی صدر نے چاکلیٹ کھاتے ہوئے صرف یہ کہا کہ کیمیائی گیس استعمال کرنے والوں پر میزائل گرانا جائز ہے۔ خروشیف نے اپنی خودنوشت میں لکھا تھا کہ انہیں ماﺅزے تنگ کو یہ سمجھانے میں بڑی دقت پیش آئی کہ ایٹمی جنگ میں فوج کی نفری بے معنی ہو جاتی ہے۔ یہ ساٹھ برس پہلے کی بات ہے۔ اس طویل سفر کے بعد امید کی صرف ایک کرن برآمد ہوئی ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ جنگل کا قانون نہیں چل سکتا۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کا ردعمل ابھی سامنے نہیں آسکا۔ بلاول زرداری بھی غالباً رحمن ملک صاحب سے مشاورت کر رہے ہیں۔ نارمنڈی میں ہزاروں لاشے بچھ چکے ہیں اور مردان میں مشال خان کو دفن کیا جا چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).