امریکہ ایک نئی جنگ کے دہانے پر


مختلف خبر رساں ایجنسیوں نے اطلاع دی ہے کہ امریکہ شمالی کوریا کی طرف سے نئے ایٹمی دھماکہ کے اندیشے کی صورت میں شمالی کوریا پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تاہم پینٹیگان نے سرکاری طور پر ان خبروں کی تصدیق کرنے سے انکار کیا ہے۔ امریکہ کے دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان خبروں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ نے گزشتہ ہفتے کے دوران ایک طیارہ بردار جہاز جنوبی کوریا کی طرف روانہ کیا تھا جہاں امریکی فوج اور بحریہ نے جنوبی کوریا کی فوج کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ہفتہ عشرہ قبل شمالی کوریا کی طرف سے جاپان کی طرف اوسط فاصلہ تک مار کرنے والے میزائیل کے تجربہ پرسخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے شمالی کوریا کو اس قسم کی اشتعال انگیزی سے باز رہنے کے لئے کہا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ متعد بار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر چین نے اس مسئلہ کو حل کرنے میں کردارادا نہ کیا تو امریکہ خود ہی اس مسئلہ سے نمٹ لے گا۔

چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے آج صبح متنبہ کیا ہے کہ امریکہ کو کسی غیر ذمہ دارانہ اقدام سے باز رہنا چاہئے ورنہ صورت حال خراب ہو سکتی ہے۔ اس دوران امریکہ کے متعدد میڈیا ہاؤسز نے یہ خبر دی ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ اگر یہ محسوس کیا گیا کہ شمالی کوریا نیا ایٹمی دھماکہ کرنے والا ہے تو امریکی فضائیہ قبل از وقت کارروائی کرتے ہوئے اس کے ان ارادوں کو ناکام بنا دے گی۔ تاہم اس بات کا شدید اندیشہ موجود ہے کہ اگر ایسا حملہ کیا گیا تو شمالی کوریا کی طرف سے بھی جواب دیا جائے گا اور وہ جنوبی کوریا اور جاپان کو نشانہ بنانے کی کوشش کرے گا۔ جاپان کے وزیر اعظم شینزو ایبے نے کل ایک بیان میں اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر شمالی کوریا پر حملہ ہوتا ہے تو اس بات کا خطرہ ہے کہ پیونگ یانگ کی طرف سے انتقامی کارروائی کی جائے گی اور وہ اس صورت میں بدحواس ہو کر سیرین گیس کے بم بھی برسا سکتا ہے۔

اگرچہ بعض امریکی مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ کی طرف سے شمالی کوریا پر پیش بندی کے طور پر حملہ کرنے کا امکان نہیں ہے لیکن یہ بات بعید از قیاس نہیں ہو سکتی کہ اگر شمالی کوریا پھر سے ایٹمی دھماکہ کرنے کی غلطی کرتا ہے تو امریکہ بھی جوابی کارروائی کرے گا۔ تاہم اس صورت میں شمالی کوریا کے رد عمل اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والی تباہی کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے حالات سدھارنے کا نعرہ لگاتے ہوئے برسر اقتدار آئے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ امریکہ دوسرے خطوں میں اپنی فوجی سرگرمیوں کو محدود کرے گا۔ لیکن صدارت کے پہلے دو ماہ کے دوران انہیں پے درپے سیاسی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے نتیجہ میں وہ دوسرے ملکوں میں امریکی طاقت کا مظاہرہ کرکے خود کو بااختیار صدر ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے شام کے ہوائی اڈے پر امریکی میزائیل حملہ بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ ٹرمپ بطور صدر اپنا اختیار دکھانے کے لئے بے چین ہیں۔ اسی طرح کل افغانستان میں دس ہزار کلو سے زائد وزنی بم پھینکا گیا ہے۔ اس بم کو تمام بموں کی ماں کہا جاتا ہے اور یہ ایٹم بم کے بعد سب سے زیادہ تباہ کن ہے۔ یہ بم 2003 میں تیار کیا گیا تھا لیکن کل پہلی بار اسے افغانستان میں استعمال کیا گیا۔ اس بم سے ایک چھوٹے قصبے جتنا علاقہ نیست و نابود ہو جاتا ہے۔

اسی مزاج کے زیر اثر اب ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے یہ اشارے دیئے جارہے ہیں کہ امریکہ شمالی کوریا کو سبق سکھانے کے لئے اس پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ اپنی جلد بازی اور طاقت کے نشے میں ایک ایسی جنگ کا آغاز کرسکتے ہیں جو امریکہ کو براہ راست چین اور روس کے مد مقابل لا کھڑا کرے گی۔ اس کے علاوہ اس جنگ کے نتیجہ میں امریکہ کے قریب ترین حلیف ممالک جاپان اور جنوبی کوریا کو شدید تباہی کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

شمالی کوریا کے نائب وزیر خارجہ ہان سونگ رائل نے ایسوسی ایٹد پریس کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان کا ملک امریکی حملہ کی صورت میں خاموش نہیں بیٹھے گا اور اس حملہ کا دندان شکن جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے جارحانہ بیانات او ر اشتعال انگیز ٹوئٹ پیغامات کے ذریعے صورت حال کو خراب کررہے ہیں۔ لیکن شمالی کوریا پر امریکہ کی ان دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ ملک کی قیادت جب بھی مناسب سمجھے گی، وہ ایٹمی دھماکہ کرے گی۔ ہمیں اس معاملہ میں امریکہ یا دنیا کے رد عمل کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

شمالی کوریا میں ایک سخت گیر آمر کم جونگ ان کی حکومت ہے جو ملک کے عوام پر اپنی دہشت برقرار رکھنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ اس صورت میں اگر امریکہ کا صدر بھی غیر ذمہ دارانہ جنگی نعرے بازی کا سہارا لے گا یا اسے کمزور ملک سمجھ کر حملہ کرنے کی غلطی کرے گا تو اس سے دنیا کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ٹرمپ خود بتا چکے ہیں کہ گزشتہ دنوں چین کے صدر زی جن پنگ نے انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے حوالے سے حتی الامکان مدد کرنے کی کوشش کرے گا۔ امریکہ کو سفارتی ذرائع سے اس بحران کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ امریکہ کے صدر کو اس موقع پر انتہائی ذمہ داری اور سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ وہ خود اپنے ملک کو ایک ایسی جنگ میں جھونک سکتے ہیں جو امریکی عوام کی بہبود کے بارے میں ان کے سارے خوابوں کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali