فلم ’بیگم جان‘ میں بٹوارے کی بے لاگ منظرنگاری


بیگم جان نے سنیما سکرین پر داخل ہونے سے پہلے ہی فلم شائقین کو اپنے کردار اور باتوں سے چونکا رکھا تھا اور ہر زبان پر بس ودیا بالن “بیگم” کا ہی چرچا تھا۔ میں نے ایک ہفتہ قبل ہی اس فلم کا ٹکٹ بک کرا لیا تھا اس یقین سے کہ مہیش بھٹ اور ودیا بالن نا امید نہیں کریں گے۔

بیگم جان، دراصل بنگالی فلم “راج کہنی” کو لے کر ہندی میں بنائی گئی فلم ہے جو کہیں نہ کہیں حقیقت پر مبنی ہے۔ بیگم جان کا کردار اور کہانی لکھنے کی ہمّت شریجیت مکھرجی نے کی ہے جب کہ بے باک ڈائلاگ کوثر منیر کے ہیں۔

فلم کی شروعات ہی میں فلم کو سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی کے نام کردیا جاتا ہے اور یوں دیکھنے والے شائقین کی امید اور بڑھ جاتی ہے۔ یہ برصغیر کے وہ دو لکھاری ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد کسی انسان کو تقسیم ہند کی تاریخ پر خوشی یا فخر نہیں ہو سکتا بلکہ انسانیت پر شرمندگی اور ملال ہونے لگتا ہے۔

یوں تو فلم تقسیم ہند کے پس منظر پر مبنی ہے لیکن اس کے لئے موجودہ منظر میں دہلی میں بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات کی ایک جھلک دکھلائی جاتی ہے تاکہ دیکھنے والوں کو بتلایا جا سکے وقت بدلا لیکن حالات نہیں۔

کوثر منیر نے انتہائی باریکی اور نزاکت سے 1947 کی تقسیم کو سکرین پر لکھا ہے کہ کیسے ایک اہم  لکیر نے لاکھوں انسانوں کو بے گھر اور بے عزت کیا۔ تقسیم کی یہ ناقابل فہم لکیر بیگم جان کے کوٹھے کے بیچ سے گزرتی ہے جس کے باعث انہیں وہاں سے جگہ خالی کرنے کو کہا جاتا ہے اور یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔

ودیا بالن اس فلم کا مرکزی کردار نبھا رہی ہیں جو شکرگڑھ اور دورانگلہ تحصیل کے بیچو بیچ ایک کوٹھی کو کوٹھے میں تبدیل کرچکی ہے اور “بیگم جان” کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ بیگم کے پاس کوئی 7-8 لڑکیاں پیشہ کرنے والی ہیں جن کی کہانی کو فلم کے مختلف حصّوں میں دکھایا جاتا ہے۔ بیگم جان بذات خود کم عمری کی بیوگی گزار چکی ہیں جنہیں بنارس سے لکھنؤ تک کے کئی کوٹھوں کا سفر کرنے کے بعد “بیگم جان” کا رتبہ ملتا ہے۔ فلم بنانے اور لکھنے والوں کا کمال ہے کہ انہوں نے آزادی کے پس منظر میں انسانی فطرت کے پیچیدہ ترین رشتوں اور خواہشوں کو خوبصورتی سے دیکھنے والوں تک پہنچایا ہے۔

جب سر ریڈکلف لکیر کھینچ دیتے ہیں تو مسلم لیگ اور کانگریس کی جانب سے دو سرکاری افسران ملتے ہیں جو درحقیقت بچپن کے دوست ہوتے ہیں لیکن آزادی کے بعد دشمن ہونے پر مجبور۔ اشیش ودھیارتی جنہوں نے کانگریس کی جانب سے ہندو افسر ہونے کا کردار نبھایا ہے، وہ مسلمان افسر (دوست) کو بتلاتے ہیں کہ اس آزادی کو قبول کرنے کا آسان طریقہ نفرت ہے۔ اس فلم کے ان دو کرداروں نے بتایا کہ نفرت کا بیج ہی اصل بٹوارہ پیدا کرے گا لیکن اس نفرت کی قیمت انہوں نے بھی دی— خاندان کی صورت، عزت کی صورت، اور سب سے بڑھ کر ضمیر کی!

بیگم جان کا کوٹھا کسی بھی عام کوٹھے کا نقشہ کھینچتا ہے جہاں نہ کوئی ذات پات، نہ دھرم ایمان، لیکن احساس ہے، تکلیف ہے جس کی دیکھ بھال بیگم جان کرتی ہیں۔ ودیا بالن کی اداکاری پر ویسے بھی کسی کو شک نہیں لیکن یہ کردار شاید ان سے بہتر کوئی بھی نہ نبھاتا۔ کوثر منیر کے ڈائلاگ سے مکمّل انصاف صرف ودیا کرسکتی تھیں۔ لفظوں کی بیباکی اور درد ودیا کی اداکاری سے امر ہوگے۔

فلم میں ویسے تو کئی بہترین لمحات ہیں لیکن ذاتی طور پر مجھے وہ کہانیاں پسند ہیں جو انتہائی خوبصورتی سے بیچ بیچ میں “اماں” کوٹھے پر رہنے والی دس سالہ “لاڈلی” کو سناتی ہیں۔ یہ کہانیاں جھانسی کی رانی سے لے کر مہارانی پدماواتی پر مشتمل ہیں اور اماں ان کہانیوں کو سبق کے طور پر سناتی ہیں۔ ہند و پاک وہ خطہ ہیں جہاں آج بھی لڑکی کو کمزور/نازک/ابتر سمجھا جاتا ہے اس لئے یہ کہانیاں بیگم جان کے کردار میں عجیب سی جان ڈالتی ہیں۔

کوٹھے اور طوائف پر تو بہت فلمیں بنی ہے لیکن “بیگم جان” کی خاص بات ہے وقت کی یاد دہانی!

جس طور طریقے سے بیگم جان کی کوٹھی خالی کرائی جارہی تھی وہ طریقے آج بھی زندہ ہیں، بس آلاتِ واردات ترقی یافتہ ہیں۔ عصمت دری کا خوف تب بھی تھا اب بھی ہے۔ راجہ مہاراجہ چلے گئے، زمیندار اور ان کی سرکار نے جگہ لے لی۔

ہندوستان اور پاکستان نے 1947 کی تقسیم دیکھی، بلوے دیکھے، عزتیں کنوئیں میں کودتی دیکھیں اور یہی سب پھر 1971 میں دیکھا، لیکن آج بھی سرحد کے دونوں پار نفرت کا وہ بیج جو جان بوجھ کر تقسیم کے وقت بویا گیا تھا، جنگ اور لاشوں کی صورت فصل کاٹ رہا ہے۔

تاریخ کا اصل اور بدصورت پہلو تو منٹو کی کہانیوں میں ہے، امرتا کے پنجار میں ہے، یا پھر چغتائی کے لحاف میں چھپی ہیں۔

ہمیں آنے والی نسلوں کو اس تاریخ سے روشناس کرانا ہوگا، ان کے ذہنوں کو ذات کی غلامی سے آزادی دلانی ہوگی تاکہ ہم میں اپنی تاریخ سے نظر ملا کر بات کرنے کی ہمّت ہو اور غلطیاں نہ دہرانے کی سوجھ بوجھ پیدا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).