تو سر تن سے جدا کا مطلب اور کیا ہے؟


زیادہ بھولے نہ بنو۔ سر تن سے جدا کا مطلب اور کیا ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ سر تن سے جدا صرف نعرہ ہے اور یہ نعرہ لگانے والوں کو جب کسی پر اس جرم کا مرتکب ہونے کا شک ہو گا جس کے لئے وہ یہ نعرہ بلند کرتے ہیں تو وہ قانون ہاتھ میں نہیں لیں گے بلکہ بیٹھ کر ایک عرضی لکھیں گے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کو بھجوا دیں گے۔ اور پھر قانون اس شخص کو اس کی عزت نفس مجروح کیے بغیر بلائے گا اور اس سے کچھ ضروری سوالات پوچھے۔ کچھ شواہد مانگے گا اور اس نتیجے پر پہنچے گا کہ جرم سرزد ہوا کہ نہیں اور اس شخص کے خلاف مقدمہ بنتا ہے کہ نہیں۔ اگر بنتا ہوا تو مقدمہ درج ہو گا اور پولیس تفتیش کرے گی اور عدالت اس تفتیش کے مطابق اپنا فیصلہ دے گی۔ جناب یہ سر تن سے جدا کا ترجمہ نہیں ہے۔ سر تن جدا کا ترجمہ وہی ہے جو ہم کئی مرتبہ دیکھ چکے ہیں اور جو پرسوں ایک مرتبہ پھر مردان یونیورسٹی میں دیکھ لیا ہے۔

جب باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ہوا تھا تو کچھ لوگوں نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ قاتل اور مقتول کی آئیڈیالوجی میں کچھ فرق نہ تھا۔ سوچ اور مدعا دونوں کا ایک جیسا تھا۔ دونوں ہی بغیر کوئی سوال اٹھائے شریعت کی سخت گیر تفہیم کا نفاذ چاہتے تھے۔ بس حملہ آور وہ تھے جو اٹھ کھڑے ہوئے اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے کے لئے۔ لیکن جو یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے انہوں نے یہ فیصلہ کرنے میں دیر کر دی تھی۔ لہذا ان کو ان کی اس سستی کی سزا دی گئی۔ یہ بات تو ثابت ہو گئی۔ مشال کو قتل کرنے یونیورسٹی کے باہر سے کوئی طالبان نہیں آیا۔ شریعت کا یہ نفاذ یونیورسٹی کے اندر سے ہی آیا ہے۔

جو طالبان بم اور بندوق لئے پھرتے ہیں اور انہوں نے باقی ساری دنیا کو یہ وارننگ دے رکھی ہے ان جیسے مسلمان بن جاؤ یا پھر تمھارا قتل واجب ہے، ایک بڑا مسئلہ ہیں لیکن معاشرے کے اندر طالبان آئیڈیالوجی اس سے بھی کہیں زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ اور اس طالبان آئیڈیالوجی یعنی مذہبی انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لئے کوئی قابل ذکر قدم بھی نہیں اٹھایا گیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ قوم کو مزید مذہبی انتہا پسند بنانے کا عمل ابھی جاری ہے۔ وہی انتہا پسندی مشال کی قاتل ہے اور اس پر مذہبی انتہا پسندوں کو کسی قسم کی کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں کچھ غلط نہیں ہوا۔ انہیں سر تن سے جدا کرنا ہی سکھایا گیا ہے اور انہوں نے یہی تو کیا ہے۔ اس میں پرابلم کیا ہے۔

اب بھی دیکھو ناں سب لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ مشال کا قتل ظلم ہے کیونکہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اگر کوئی گناہ کیا ہے تو پھر تو کوئی ظلم نہیں ہوا کیونکہ سر تن سے جدا ہی تو سزا ہے۔ خوف اتنا ہے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس نے جرم کیا ہے یا نہیں، سزا تو صرف عدالت ہی دے سکتی ہے۔ اور عدالت کے بغیر جان لے لی گئی ہے تو یہ جرم ہے۔ یہ جرم بار بار ہو رہا ہے اور اس کو کیسے روکنا ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کو یہ کیسے بتانا ہے کہ سر تن سے جدا کرنا جرم ہے، ریاست کا کام خود کرنے کا عوام کو حق حاصل نہیں ہے۔ یہ تب ہو گا جب یہ نعرہ لگانا بھی جرم ہو گا۔

تو پھر مشال کا قاتل کون ہے۔ آپ کے خیال میں وہ لوگ مشال کے قاتل ہیں جو اس پر پتھر برسا رہے تھے۔ وہ بھی ہوں گے، بلکہ ہیں لیکن ان کی حیثیت تو پیادوں جیسی ہے۔ اصل جرم تو ان کا ہے جو ہر وقت نفرت کے بیج بوتے ہیں۔ درجنوں ایسے لوگ ہیں جو ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر اس قتال کو فرض قرار دیتے ہیں۔ ہزاروں لاؤڈسپیکروں سے بھی بلا جھجھک یہی آواز آتی ہے۔ لیکن ان مجرموں کی حیثیت بھی دوسرے درجے کی ہے۔

اصل مجرم تو ان سے اوپر بیٹھے ہیں۔ جنہوں نے یہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا عمل شروع کیا تھا وہ تو اب زیادہ تر مر چکے ہیں۔ لیکن جو ابھی زندہ ہیں اور با اختیار ہیں ان کا کام (اور کسی حد تک وعدہ بھی) اس انتہا پسندی کے عمل کو ریورس کرنا تھا۔ لیکن انہوں نے ایسا کرنا ابھی شروع بھی نہیں کیا۔ وزیر لوگ کیسی کیسی بودی دلیلیں گھڑتے ہیں جب ان سے سوال کیا جائے کہ وہ جہادی لیڈروں کے لئے کافی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

مذہب رویے میں کوئی جتنا انتہا پسند ہے اتنا ہی معزز اور نیک ہے۔ لہذا مذہبی انتہا پسندی تو کوئی بری چیز نہیں ہے۔ اسی طرح فرقہ واریت بھی کوئی خاص بری چیز نہیں ہے۔ ہمارے فاضل وزیر داخلہ ڈنکے کی چوٹ پر فرما چکے ہیں کہ وہ تو فرقہ واریت کے نام پر قتال کی تبلیغ کرنے والوں کے ساتھ چائے پی رہے تھے اور انہیں آپ دہشت گرد نہیں کہہ سکتے۔

جب تک سرکار ”سر تن سے جدا کا“ ایسے نعرے پر پابندی نہیں عائد کرے گی تب تک معاملات ٹھیک ہونے کی کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی۔

قوم کو باور صرف یہ کرانا ہے کہ عقیدہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ کوئی دوسرا آپ سے اس سلسلے میں سوال نہیں کر سکتا۔ سرکار نہ صرف آپ سے یہ سوال نہیں کر سکتی بلکہ اس کا فرض آپ کی آپ کے عقیدے کی حفاظت بھی ہے۔

یہ بات آسان اور سادہ ہے۔ ہماری اگلی نسل اس بات کو فوراً سجھے گی۔ کیونکہ اپ اپنے مذہب کے ذمہ دار ہیں دوسروں کے مذہب کا آپ سے نہیں پوچھا جائے گا۔

ابھی ہم مذہبی انتہا پسندی سکھا رہے ہیں اس لئے معاشرہ اسی سے بھرا پڑا ہے۔ مذہبی رواداری بھی باقاعدہ سکھانی پڑے گی۔ سکولوں اور مدرسوں کا نصاب، مسجدوں کا نظام، آئین اور قانون اور میڈیا کی روش بہت کچھ بدلنا پڑے گا تب جا کر کہیں مذہبی رواداری اتنی دہائیوں سے سکھائی جانے والی انتہا پسندی کی جگہ لے پائے گی۔ یہ عمل اگر پورے اخلاص سے شروع ہو گا تو دس سال بعد نتائج آنا شروع ہوں گے۔ ورنہ سر تن سے جدا کا نعرہ بڑا مسحور کن ہے اور چلتا رہے گا۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik