پاکستان۔دست برداری کی طرف گامزن ریاست


میں ایک عام طالب علم ہوں اور گذشتہ پچیس برسوں سے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ قتل وغارت اور اس کے محرکات کو اپنا موضوع بنائے ہوئے ہوں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کس طرح ایک منظم ہجوم نے لاہور ہائی کورٹ سے باعزت بری ہونے والے توہین رسالت کے ملزمان رحمت مسیح اور منظور مسیح پر حملہ کیا، جن میں سے ایک موقع پر مارا گیا دوسرا بھاگ گیا۔اس کیس کا فیصلہ کرنے والے جج عارف اقبال بھٹی کو کس بیدردی کے ساتھ قتل کردیا گیا۔کس طرح ایک مشتعل ہجوم نے گوجرانوالہ میں ایک حافظ قرآن کو زندہ جلادیا،پھر سمندری میں ایک خاکروب اسلم مسیح کا گھر مسمار کیا گیا۔ابھی کچھ عرصہ پہلے احمد پورشرقیہ میں ایک پاگل شخص کو چوک میں کھڑا کرکے زندہ جلادیا گیا،شانتی نگر،جوزف کالونی،جہلم میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ابھی مردان میں ایک نوجوان کو ثواب کے متلاشی طلبہ نے کس طرح بیدردی سے قتل کردیا ہے۔ گورنر سلمان تاثیر کا اندوہناک قتل اور اس طرح کے درجنوں واقعات ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن کررہ گئے ہیںاوربے گناہوں کے قتل پر اُکسانے والے ہر سو دندناتے پھر رہے ہیں ۔بظاہر نورانی چہروں کے پیچھے چھپی اندوہناک تیرگی ریاست پاکستان کے سماج کو نگلنے لگی ہے اور آسانی کے ساتھ یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ اب کوئی بھی محفوظ نہیں چاہے وہ پکا مسلمان ہو،کچا مسلمان ہو،اس کی سوچ متصوفانہ ہویا صوفی دشمن،کبھی کبھی غیر مسلم اقلیتوں کے بارے میں اس کی سوچ متوازن ہو یا نہ ہو،احمدی قادیانی ہو یا لاہوری، شیعہ ہو یا پکا رافضی،سنی ہو یا دیوبندی،وہابی ہو یا حیاتی و مماتی اصل مسئلہ یہ ہے کہ کب وہ کسی مشتعل کیے گئے ہجوم کے ہتھے چڑھتا ہے ۔پاکستان میں مذہبی آتش فشانوں نے عدم برداشت کے لاوے کو اتنی زیادہ مقدار میں اُگل دیا ہے کہ جو بچ جائے وہی سکندر۔سوائے سرکاری خبرناموں کے کہیں بھی مذہبی رواداری یا برداشت نظر نہیں آتی ۔البتہ ہمیں اکثر اوقات ایک ایسی افسانوی رواداری اور برداشت کے بارے میں بتایا جاتا ہے جو صرف اُس صورت میں برآمد ہوگی جب تمام بنی نوح انسان کی سوچ کے دھارے ایک ہوجائیں گے اور ایک ہی طرح کے عقائد کا چار سو پرچار ہوگا،بصورت دیگرمذہب و مسلک کے نام پر لوگ مارے جاتے رہیں گے،جنت جہنم کی طرف سفر جاری رہے گا۔لیکن ہم نے یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ لوگ اس طرح بھی مارے جائیں گے جیسے آج کل مارے جارہے ہیں۔پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے تک جو چیدہ چیدہ معذرت خواہانہ قسم کے لوگ امن و آشتی کے درس کو مذہبی اساطیر سے برآمد کرکے یہ کوشش کرتے نظر آتے تھے کہ کسی طرح انتہا پسندی کے داغ کو دھو سکیں وہ عرصہ ہوا خود اپنی جان بچانے کے لیے پاکستان سے بھاگ نکلے۔
میرے ایک دوست جو پولیس کے ضلعی آفیسر ہیں وہ بتا رہے تھے کہ انتہا پسندوں کے خوف کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ محکمہ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ خاص طور پر ایسے مقدمات کے اندراج سے اجتناب کریں جن میں ملزمان کا تعلق کسی مذہبی یا مسلکی جماعت کے ساتھ ہو۔اول تو مدعی پارٹی کو صلح پر راضی کرنے کی کوشش کی جائے اور اس قسم کے تنازعات میں اعلیٰ عہدیدار پولیس اہلکار سے زیادہ صلح کار کا کردار ادا کریں کیوں کہ تنازعہ کسی وقت بھی مذہبی یا مسلکی رخ اختیار کرسکتا ہے اور اس صورت میں مذکورہ ذمہ دار پولیس آفیسر ہی حالات کی خرابی کا ذمہ دار تصور ہوگا۔مذکورہ دوست نے ایک اور مثال سے بات بالکل واضح کردی ۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے راولپنڈی میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری،جس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں تھا،اس پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔مذکورہ ملزم کو پولیس نے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ابھی اسے جیل میں آئے چند روز ہی گزرے تھے کہ اس کی حفاظت پر مامور ایک پولیس اہلکار نے اس کو قتل کرنے کی کوشش کی۔موقع پر موجود دیگر پولیس اہلکاروں نے بروقت مداخلت کرکے اس کو بچالیا۔اس حملے میں توہین کا ملزم زخمی ہوگیا اور اس کو علاج کے لیے پنڈی جیل سے لاہور منتقل کردیا گیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ چوں کہ ملزم برطانوی شہری تھا اس لیے حکومت پر برطانیہ کی طرف سے بہت زیادہ دباو تھا۔پولیس کے صوبائی سربراہ نے پولیس لائن کے انچارج کو طلب کیا کہ زخمی ملزم کی دوران علاج حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔ پولیس لائن کے انچارج کے لیے یہ ایک ایسی ذمہ داری تھی جس میں کوتاہی اس کی ملازمت ختم کروا سکتی تھی لہذا مذکورہ انچارج نے پورے لاہور کی پولیس سے سات ایسے ملازمین کو تلاش کیا جو غیر مسلم تھے۔کیوں کہ مذکورہ انچارج یہ جانتا تھا کہ کوئی بھی مسلمان پولیس ملازم اس خصوصی ملزم کو قتل کرسکتا ہے۔
اگرچہ توہین کے الزامات کے تحت مارے جانے والے افراد میں ہر طرح کی سماجی حیثیت کے لوگ شامل ہیں لیکن پھر بھی بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو کسی گروہ سے منسلک نہیں تھے،تنہا اور نہتے تھے جنہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ مارا گیا۔اِن میں سے اکثر کی شناخت کسی معتوب فرقے سے جڑی ہوئی تھی یا وہ تن تنہا کسی ایسے مذہبی و مسلکی تصور سے وابستہ تھے جس کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔اِنہیں تعاقب کا سامنا کرنا پڑا اور پھر کسی دن کھدیڑ کر مار دیا گیا۔سوشل میڈیا اور نجی محفلوں میں ہونے والی بعض نازک بحثوں کے بعدجب دوسروں سے مختلف نقطہ ہائے نظر کے حامل لوگ خود بخود تنہا ہوجاتے ہیں تو اُنہیں منصوبہ بندی کے ساتھ مار دینا نسبتاً آسان ہوجاتا ہے۔
لیکن اس سارے منظر نامے میں ایک دوسرے پہلو کو بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے اور وہ پہلو ہے مذہبی گروہوں اور ٹھیکیداروں میں موجود ایسے سینکڑوں کردار جن کا تمام تر کاروبار دوسروں کے عقائد کی بیخ کنی اور توہین پر چلتا ہے۔ایسے مبلغین کی طرف سے روا رکھی جانے والی توہین کو اس کے اپنے گروہ کی طاقت بھرپور تحفظ فراہم کرتی ہے اور یوں اس قسم کی توہین ”تبلیغی یا دعوتی“ لبادے میں لپیٹ کر پیش کی جاتی ہے اور کہیں کوئی آواز نہیں اُٹھتی۔پاکستان کے تقریباً تمام مذہبی مکاتب فکر کے سرگرم علما اور مبلغین نے ایک دوسرے کے خلاف توہین کے مقدمات درج کروا رکھے ہیں اور قانون کے مطابق کی جن کی سزا بھی موت سے کم نہیں لیکن چوں کہ یہاں پر ملزمان کو کھدیڑ کر مار دینا آسان نہیں اس لیے ایسے لاتعداد مقدمات کو کبھی منظر عام پر نہیں لایا گیا۔یہاں ایسی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ کس طرح کسی مذہبی گروہوں نے اپنے مخالفین کے خلاف توہین کے مقدمات دورج کروائے مثال کے طور پر معروف دیوبندی مماتی عالم دین علامہ احمد سعید ملتانی کی متنازعہ تحقیق”قرآن مقدس بخاری محدث“ پر توہین کے کئی مقدمات درج کروائے گئے ،کتاب پر پابندی لگوائی گئی لیکن مذکورہ علامہ صاحب پچھلے دنوں طبعی موت مرے کوئی اِن کو جلانے یا کاٹنے نہ آیا۔کتاب بھی بازار میں موجود ہے اور علامہ صاحب کے ورثا اور پیروکار بھی پوری قوت سے موجود ہیں ،لیکن ہیں طاقت ور ،بس یہ فرق ہے۔خاکسار کی نظر سے آج تک کوئی مناظرہ ایسا نہیں گزرا جس میں ہر قسم کی توہین کا پورا سامان موجود نہ ہو، نہ کوئی مناظر نذر آتش ہوا نہ ہی کسی مبلغ کو کوئی آنچ آئی۔تقریباً یہی حال چھوٹے بڑے مذہبی اجتماعات کا ہے جہاں پُرجوش مبلغین مخالف مکتبہ فکر کے مسلمانوں کے عقائد اور اُن کے اکابرین کے بخیے اُدھیڑ دیتے ہیں، پولیس بھی خاموش تماشائی بنی رہتی ہے اور کوئی کسی کو کاٹنے کو نہیں دوڑتا۔میں انتہائی وثوق کے ساتھ یہ دعوی کرسکتا ہوں کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں جس قسم کے خیالات، تصورات اور اعتقادات کو عمومی طور پر توہین کے زمرے میں لایا جاتا ہے، اگر انہیں جمع کرنے کی کوشش کی جائے تو سب سے زیادہ مواد ہمارے مستند مذہبی علما اور مبلغین کی اپنی تحریروں اور تقریروں میں سے برآمد ہوگا اورسینکڑوں کتب کی صورت میں اس کو مرتب کیا جاسکتا ہے لیکن نہ انہیں کوئی سزا دے سکتا ہے اور نہ ہی اِنہیں توہین کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ اُن کے پاس طاقت ہے،گروہ ہے اور ماننے والوں کی اپنی اپنی کثیر تعداد ہے۔بنیادی معاملہ ریاست کی وہ دست برداری ہے جو اُس نے اپنے شہریوں کے تحفظ کے سلسلے میں روا رکھی ہے، جہاں بڑے گروہ اپنی حفاظت خود کرسکتے ہیں اور بوقت ضرورت دوسروں پر حملہ کرسکتے ہیں وہاں ریاست کے لاچار پن کا اندازہ لگانا اتنا مشکل کام نہیں۔جتھہ بند گروہ آگے بڑھ کر ریاست کا کام خود کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے اِنہیں کئی اطراف سے خاموش مدد اور حمایت بھی حاصل ہے جب کہ میڈیا اس کام کو مزید آسان بنانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔یہ ایک ایسا منظر نامہ ہے جس کے تمام خدوخال حوصلہ شکن ہیں اور ریاست کی نمایاں ہوتی ہوئی ناکامی کا ثبوت بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).