گھروں میں جنسی تشدد: بچیوں پر اثرات اور اس کا حل


یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل کام نہیں کہ ایک بچی یا لڑکی پر کیا گزرتی ہو گی جب اس کے اپنے گھر میں اس کا کوئی انتہائی اپنا جیسے باپ، بھائی، یا انکل اسے جنسی تشدد یا زیادتی کا نشانہ بناتا ہو گا۔ اس کا دماغ پھٹنے کو آ جاتا ہے۔ اسے کہیں پناہ نہیں ملتی۔ اول تو وہ کسی کو کچھ بتا ہی نہیں سکتی اور اگر ہمت کر کے کچھ کہہ ہی دیتی ہے تو کوئی اس کی مانتا نہیں۔ اگر ماں یا بڑی بہن مان بھی لیتے ہیں تو مدد کے قابل نہیں ہوتے۔ چپ رہنے کو کہا جاتا ہے تاکہ سارے خاندان کی “عزت” خراب نہ ہو جائے۔ ہم سارے برباد ہو جائیں گے۔ کیا رہ جائے گا ہمارے پلے۔ کون کرے گا ہم سے شادیاں۔

اور جب یہ زیادتی مسلسل چل رہی ہو، ہر اگلی رات اسی کا سامنا ہو یا ہر اگلی تنہائی میں اس کا خوف ہو تو پھر صرف زندہ رہنا ہی بہت ہمت کا کام ہے۔

ایسی بچیوں کا دنیا پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کیسے کسی پر اعتبار کر سکتی ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر وہ کسی پر بھی اعتبار کر لیتی ہیں۔ لہذہ ایسی بچیوں کا یہ چانس زیادہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کسی کو ملیں اور اس پر اعتبار کر لیں۔ اجنبی کیا برا کر لے گا جو اپنوں نے نہیں کیا۔

اس عذاب سے گزرنے والی لڑکیاں ذہنی اور جسمانی صحت کے مسائل کا شکار رہتی ہیں۔ ڈیپریشن تو لازمی بات ہے۔ ڈیپریشن کی وجہ سے قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے اور بس مسائل کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے۔

گھروں کے اندر بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد اور زیادتی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہر معاشرے میں ہے، چاہے وہ یورپ جیسا ترقی یافتہ ملک ہو یا ہم جیسا ترقی پذیر۔ فرق یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا نے اس کو جان لیا، اعتراف کر لیا اور وہاں اس ظلم کا شکار لڑکیاں مدد کے لئے پکار سکتی ہیں اور انہیں مدد ملتی بھی ہے کیونکہ اس کا نظام موجود ہے۔ ہمارے ہاں ابھی ایسا نظام موجود نہیں ہے۔

ہم بھی ٹھیک سمت میں قدم اٹھا کر اس کرب کا شکار بچیوں اور بچوں کو نہ صرف اس عذاب سے نکال سکتے ہیں بلکہ جو نفسیاتی صحت کا نقصان ہو چکا ہوتا ہے اس میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔

اس کا ایک ہی حل ہے۔ ایک ایسا نظام ہونا لازمی ہے کہ کوئی بھی بچی اگر اس ظلم کا شکار ہو رہی ہے تو وہ اس کی شکایت کر سکے، مدد مانگ سکے اور اس کی مدد کی جا سکے۔

وہ نظام کیا ہو گا اور کیسے کام کرے گا؟ تو سب سے پہلے تو اس حقیقت کو ماننے کی ضرورت ہے کہ یہ مسئلہ باقی دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی موجود ہے۔ اور اس پر مٹی ڈالنے سے یہ ختم نہیں ہو گا بلکہ بڑھے گا اس لئے اس مسئلے پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کھل کر بات ہو گی تو اس کا فائدہ ساری بچیوں اور بچوں کو ہو گا۔ اس سے جنسی تشدد اور زیادتی کا شکار بچیوں کو یہ پتا چلے گا کہ وہ اکیلی اس ظلم کا شکار نہیں ہیں۔ اس سے ان میں بولنے کی ہمت پیدا ہو گی۔ میڈیا یہاں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

عام طور پر یہ بات سب سے پہلے ماں یا بڑی بہن تک پہنچتی ہے۔ ہم سب کو یہ علم ہونا چاہیئے کہ کوئی بچی یا بچہ ایسی غلط شکایت نہیں کر سکتا لہذا جونہی ایسی شکایت آپ تک آتی ہے تو اس کی بات پر یقین کریں۔ اس بات کو سنجیدگی سے لیں۔ بچے کی مدد کریں اور اسے بتائیں کہ یہ اس کا قصور نہیں ہے۔ اس کو اس رشتہ دار شخص سے دور رکھیں جسے ملتے ہوئے وہ اچھا محسوس نہیں کرتی۔

ہو سکتا ہے کہ آپ اتنی بے اختیاری کی زندگی گذار رہی ہوں کہ اس بات کو باہر نکالنے اور کھل کر لڑائی لڑنے سے ڈرتی ہوں پھر بھی بچی کا ساتھ دیں۔ بچی کے ساتھ بیٹھ کر منصوبہ بندی کریں، کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے آئے گا۔ یہ جرم کرنے والا عام طور پر بہت بزدل ہوتا ہے اور بات کے نکلنے سے ڈرتا ہے۔ اس کا یہ خوف اس کو بھگانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مجرم کو یہ باور کرا دینا کہ بچی نے اس کی شکایت کر دی ہے کافی موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ کوئی ایک نسخہ ہر جگہ نہیں چل سکتا۔ ہر کسی کو اپنے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوگا۔ صرف یہ لازم اور حتمی ہے کہ شکایت کندہ کی بات کا احترام کریں اور اس کا ساتھ دیں۔ اسے یقین دلائیں کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔ بات چیت جاری رکھیں۔

اب دوسرا نقطہ یہ ہے کہ حکومت کیسے مدد کر سکتی ہے۔ حکومت نے جب بندوبست کرنا ہے تو بچیوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ سکول جانے والی اور سکول سے باہر لڑکیاں۔

سکول جانے والی بچیوں تک پہنچنا نسبتا آسان ہو گا۔ سکولوں میں ایسا بندوبست کرنا چاہیئے کہ جہاں بچیاں اپنی شکایت پہنچا سکیں اور اس سلسلے میں مدد مانگ سکیں۔ جب کسی بچی کی شکایت رجسٹر ہو جائے گی تو پھر اس معاملے کا حل ہر کیس کے لئے الگ الگ نکالا جائے گا۔ کہیں صرف سکول اس کو حل کر لے گا۔ کہیں سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ کی ضرورت ہو گی اور کہیں پولیس یا عدالت کی بھی ضرورت پڑے گی۔ اس سلسلے میں اس زیادتی کا شکار لڑکی کی رائے بہت اہم ہو گی۔ رازداری بہت ہی اہم ہے۔ شکایت کرنے والی لڑکی کو مزید خطرے سے بچانا اور اس کی زندگی کے تحفظ کو بہت اہمیت دی جائے۔ کوئی فیصلہ لڑکی کی مرضی کے خلاف نہیں ہونا چاہیئے۔ لڑکی کی مرضی سے گھر میں سے ماں یا کسی اور رشتہ دار کو شامل کرنا بہت مفید ہو سکتا ہے۔ عام طور سوشل ورکر، استاد یا کونسلر کو کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیئے جس کی اجازت کلائینٹ نے نہ دی ہو۔

ہر سکول میں چند اساتذہ کی اس بات پر بھی تربیت ہونی چاہیئے کہ وہ کسی بچی کے رویے میں تبدیلی سے جلدی خبردار ہو جائے اور از خود بھی بچی سے کھوج لگانے کی کوشش کرے۔

دوسرا گروپ وہ بچیاں ہیں جو سکول نہیں جاتی۔ ان تک رسائی مشکل ہوتی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں ٹیلی فون ٹیکنالوجی نے رسائی ممکن بنا دی ہے۔

بچیوں اور بچوں کی حفاظت کے لئے ہیلپ لائین بنانی چاہیئے۔ یہ کام گورنمنٹ خود یا پھر غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر سکتی ہے۔ یہ کام پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں بہت اچھا ہو سکتا ہے۔ ہیلپ لائین نمبرز کو بہت پھیلانا چاہیئے۔ ہر گاؤں اور محلے تک لوگوں کو پتا ہونا چاہیئے کہ کہاں فون کیا جا سکتا ہے۔ یہاں بھی میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔

اس طرح کی ہیلپ صرف جنسی تشدد نہیں بلکہ ہر طرح کے امتیازی سلوک، تشدد اور زیادتی کا شکار بچوں کی مدد کے لئے ہونی چاہیئے۔ ہیلپ لائین کے اچھے نظام سے بہت ساری بچیوں اور بچوں کی مدد ہو سکتی ہے، بدقسمتی سے سب کی نہیں۔

ہیلپ لائیں ابھی تک کا آزمایا گیا ایک اچھا اور آخری حل بھی ہے۔ لیکن ہمیں علم ہونا چاہیئے کہ ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں رازداری کے بارے میں کسی پر اعتبار کرنا بہت مشکل ہے اور کسی کی زندگی کی ضمانت گورنمنٹ بھی نہیں دے سکتی وہاں ہیلپ لائین ایک حد تک ہی مدد کر سکتی ہے۔ کچھ لوگ ہیلپ لائین پر کال نہیں کر پائیں گے اور کچھ ایسے کیسز بھی سامنے آئیں گے جن میں مدد نہیں ہو سکے گی۔

ایسی ہی ایک ہیلپ لائین کا تجربہ بتاتا ہے کہ کئی لڑکیاں چیخ چیخ کر اپنا دکھڑا سناتی تھیں مگر پولیس کو مطلع کرنے یا اپنے گھر والوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں کیونکہ ان کی جان کی ضمانت دینا ممکن نہ تھا۔ اسی طرح والد کی جھوٹی عزت، دوسری بہنوں کی شادیاں اور پتا نہیں کون کون سے غیر انسانی اور غیر ضروری دباؤ ہیں جو ہم نے پال رکھے ہیں اور لڑکیوں اور عورتوں نے اگر سانس لینا ہے تو انہی کے نیچے ہی لینا ہے۔ لیکن بہرحال ہیلپ لائین ہی حل ہے کیونکہ وہ بہت ساری بچیوں کو اس ظلم سے نجات دلا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں بہت اچھی قانون سازی کی بھی ضروت ہے۔

یہ مضمون اس سلسلے کا آخری مضمون نہیں ہونا چاہیئے۔ باقی لوگوں کو بھی سامنے آنا چاہیئے تاکہ بحث جاری رہے۔ مزید حل اسی بحث سے نکلیں گے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik