ہم سب کی باچھوں سے ٹپکتا خون


مشال خان مردان کی ولی خان یونیورسٹی کا صحافت کا طالب علم جو اگر زندہ رہتا تو مستقبل کے اس پاکستان کو سماجی، مذہبی اور انسانی حوالوں سے منصفانہ، پرامن اور باہمی احترام کا مظہر بنانے میں اپنا حصہ لازمی طور پر ڈالتا، جس پاکستان کا خواب ہم میں سے اکثر دیکھتے ہیں اور جو آج کے خونخوار مذہبی جنونیوں کے ملک سے بہرحال مختلف ہونا چاہیے۔

تیرہ اپریل دو ہزار سترہ کے بعد کے پاکستان میں مشال خان کا کوئی بھی عملی یا ذاتی کردار نہیں ہو گا۔ لیکن مشال کے اسی کی یونیورسٹی کے بہت سے طالب علموں کے ہاتھوں وحشیانہ قتل کے بعد اس کی اس المناک ہلاکت اور اس جرم کے ارتکاب کے غیر انسانی انداز کے اثرات مستقبل کے پاکستان میں لازمی طور پر نظر آئیں گے۔

مشال خان نے ایک بار اپنی ایک ٹوئیٹ میں لکھا تھا، “لکیریں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ جلد پر کھینچی جائیں تو خون نکال دیتی ہیں، زمین پر کھینچی جائیں تو سرحدیں بنا دیتی ہیں۔” جو ایک بات مشال خان ٹوئٹر یا فیس بک پر لکھنے کی بجائے مردان یونیورسٹی کیمپس پر اپنے خون سے مٹی پر لکھ گیا، وہ ہم سب کو پڑھنی چاہیے۔ “وہ ملک جو پاک تھا، اس طرح کی قتل و غارت اور نفرتوں سے ناپاک کیوں ہو گیا ہے؟”

ہم عام طور پر کسی قتل گاہ کی مٹی پر مقتولین کے خون سے لکھی گئی تحریریں نظر انداز کر دیتے ہیں، کسی قابل مذمت ناانصافی کے خلاف روتے ہوئے اٹھائی گئی آواز بھی ہمارے کانوں تک نہیں پہنچتی، ہم کہ جنہیں یہ ‘شرف’ حاصل ہے کہ ہم اسلام کے نام پر بننے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہیں، ہمیں اپنے ہی معاشرے کے چہرے پر مظلوموں کے خون سے لکھے گئے وہ احتجاجی مطالبے بھی دکھائی نہیں دیتے، جن میں کہا گیا ہوتا ہے:

دن کی روشنی میں، بہار کے اس موسم میں، جہاں علم کی روشنی پھیلنی چاہیے تھی، جہاں پھولوں کی خوشبو کو خوش کن ہونا چاہیے تھا، جہاں وجہیہ جوانوں اور خوبصورت لڑکیوں کو دلہے اور دلہنیں بننا چاہیے تھا، وہاں قاتل نفرتوں کا راج کیوں ہے؟ وہاں تعلیم اشرف المخلوقات کو بھیڑیوں سے بھی زیادہ خوفناک درندہ کیوں بنا رہی ہے، وہاں عام شہریوں کی مسخ شدہ لاشیں کیوں ہیں؟

مجھے پاکستانی معاشرے کے اجتماعی ضمیر کے چہرے پر لکھے گئے یہ سب مطالبے، سوال اور احتجاجی نعرے نظر آتے ہیں۔ لیکن میں اعتراف کرتی ہوں کہ میرے پاس ان سب سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔ صرف افسوس، شرمندگی اور ایک شدید احساس جرم ہے کہ میں بھی ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہوں جہاں بڑی تعداد میں مذہب کی برداشت کی بجائے عدم برداشت سے عبارت اپنی ہی غلط تشریح اور افواہوں کی صورت میں سنی سنائی بے بنیاد باتوں کی وجہ سے بینائی ہونے کے باوجود نابینا ہو چکے جنونیوں کے ایک ہجوم میں شامل قاتلوں نے نہ صرف مشال خان کو پہلے قتل کیا، بلکہ پھر اس کی لاش پر پتھر اور گملے تک پھینکنا چاہے اور اس کے جوان جسم کو، جو تب تک خون میں لتھڑا ہوا، جگہ جگہ سے زخمی اور مٹی میں روندا گیا ایک لاشہ بن چکا تھا، آگ لگا دینے کی کوشش بھی کی۔

انسان اشرف المخلوقات ہے، باقی تمام مخلوقات سے بہتر اور افضل۔ اسلام امن کا پیغام دیتا ہے، روا داری کا درس دیتا ہے۔ اسلام کا ایک بنیادی پیغام یہ بھی ہے کہ جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اس نے گویا ساری انسانیت کا قتل کیا۔ ولی خان یونیورسٹی میں انسانوں کے ہاتھوں ایک بے گناہ اور انسان دوست، بہتری، امن اور ترقی کے خواب دیکھنے والے ہم جیسے ہی ایک پاکستانی کے وحشیانہ اجتماعی قتل نے ثابت کر دیا کہ یہ قاتل، پاکستانیوں اور مسلمانوں کے طور پر، دونوں حوالوں سے، محض قانون، انسانیت اور زندگی کے لیے اپنی بے احترامی کی وجہ اشرف المخلوقات تو بالکل نہیں بلکہ تمام مخلوقات سے کم تر اور ‘احقرالمخلوقات’ ہیں۔

مشال خان کا قتل خیبر پختونخوا میں مبینہ توہین مذہب کا الزام لگا کر کسی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل کا بظاہر پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی پاکستان میں درجنوں شہریوں کو اسی طرح قتل کیا جا چکا ہے۔ مشال کے قتل سے پہلے پاکستان میں اسی طرح کا جو آخری خوفناک اجتماعی جرم کیا گیا تھا، اس کی بھی بہت مذمت کی گئی تھی۔ مشال خان کے قتل کی بھی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔

تجربہ بتاتا ہے کہ پاکستان میں چونکہ ابھی تک غلط استعمال ہونے والے متنازعہ قانون، دست دراز پولیس، مقتولین اور مظلومین کے لواحقین کو ہر انسانی جان کے بدلے پانچ پانچ لاکھ روہے کے چیک دینے والے حکمران، اندھی فرقہ بندی، بے تحاشا مذہبی منافرت، انسانوں میں حیوانی سوچ کی موجودگی اور اپنے سے مختلف کو برداشت کرنے کے حوالے سے عدم آمادگی کی مجموعی صورت حال، سب کچھ وہی تو ہے، جو پہلے بھی تھا؛ اس لیے مشال خان کے قتل کے بعد اب اگلا قتل بھی ہو گا، پھر اس کے بعد اگلا، اور اس کے بعد اس سے اگلا۔

ہمیں صرف یہ پتہ نہیں کہ یہ اگلا قتل کب، کہاں اور کس کا ہو گا؟ یہ اگلا قتل میرا یا آپ کا بھی ہو سکتا ہے۔ کہیں بھی۔ میں خوف زدہ ہوں۔ قتل ہونے کے لیے قصور وار ہونا ضروری نہیں۔ صرف ایک مشتعل ہجوم درکار ہوتا ہے۔ میرا گھر میرے لیے اب تک گھر سے باہر میرے ارد گرد کے معاشرے کے مقابلے میں قدرے محفوظ ہے۔ اس لیے میں اب گھر سے باہر نکلنا نہیں چاہتی۔

لیکن میں یہ بھی نہیں بھول سکتی کہ میں اسی معاشرے کا حصہ ہوں۔ میں اسی سرزمین پر پیدا ہوئی تھی۔ یہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس میں کسی نہ کسی طور میرا بھی کچھ نہ کچھ عمل دخل ہوتا ہے۔ میں بھی اپنے معاشرے کے کُل کا ایک جُز ہوں۔ یہ سوچتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ مشال خان کے قاتلوں میں سے ایک میں خود بھی ہوں۔

مشال خان کے قاتل۔۔۔ میں نے یہ سوچا تو مجھے کسی خونخوار درندے کی طرح اپنی باچھوں سے اس کا خون ٹپکتا محسوس ہوا۔ ہم سب پاکستانی انفرادی طور پر قتل ہو رہے ہیں اور اجتماعی طور پر قتل کے مرتکب۔ ہم میں سے ہر ایک قاتل بھی ہے اور مقتول بھی۔ میں مشال خان کے قتل کی مذمت کرتی ہوں، یہ کہتے ہوئے میں اپنی باچھوں سے قطرہ قطرہ ٹپکتا اس کا خون بھی صاف کرتی جاتی ہوں۔

میں خوف زرہ ہوں، مجھے بھی قتل کیا جا سکتا ہے۔ میں بھی کسی کو قتل کرنے والے کسی مشتعل ہجوم کا حصہ بن سکتی ہوں۔ میں اپنے گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہتی۔ میں نہ قاتل بننا چاہتی ہوں نہ مقتول۔ ہم سب قتل، قاتل اور مقتول جیسے لفظوں سے پاک زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی زندگی سے پیار کرتا ہے، خاص طور پر اپنے بچوں اور اہل خانہ سے۔ لیکن ہم سب کی باچھوں سے خون بھی ٹپک رہا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).