مشال خان اور منجمد خون


دل دہل جاتا ہے۔ سر بکھر جاتے ہیں۔ دھڑکنیں اکھڑنے لگتی ہیں۔ سانسیں بے ہنگم سی چلنے لگتی ہیں۔ آنکھیں پتھر ہوئی جاتی ہیں۔ گلاب چہروں کی وہ شوخ مسکراہٹیں چھن چکی ہیں۔ وہ سرخ عارض خون سے بے پرواہ ہوئے جاتے ہیں۔ اکھیوں کے روشن چمکتے دیے بجھے بجھے لگتے ہیں۔ چمن کی کھلتی پتیوں کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے۔ سبزہ مرجھایا مرجھایا سا لگنے لگتا ہے۔ آسمان زمیں سے آ لگا ہے اور زمین بھی خون اگل رہی ہے۔ درختوں سے پتے نہیں لاشیں لٹکی ہیں، ڈالیوں پہ شگوفے نہیں انسانی اعضاء گلے ملتے ہیں۔ پھول جو اگے تھے سارے شول بن چکے۔ کبھی جو نیلی چھت سے کوئی بوند ٹپک پڑے تو مٹی اپنی باس میں بارود کی بو ہی بھر دیتی ہے۔ فضا میں پھولوں کی خوشبو نہیں ہوا خون کی مہک لیے چلتی ہے۔ میں راتوں کو دن کر لیتا مگر رات کو رات تم نے ایسا کیا کہ جاگتے میں اندھیرا میرے اندر بس گیا ہے۔ اس ملک کے پانی لہو رنگ، اور لہو پانی بن چکا۔ ہمارے اپنے بچوں کے ہاتھوں پہ ہمارے ہی بچوں کا لہو مل دیا گیا ہے۔

میں شاید واحد آدمی تھا جس کا دل مردان یونیورسٹی میں ہونے والے اندوہناک مناظر دیکھ کر بھی خون کے آنسو نہیں رویا۔ وجہ یہ نہیں کہ میں سنگ دل کا آستاں ہوں، وجہ یہ ہے کہ گذرے ہوئے 37 سالوں میں اس ملک کو روز مزید گرتے دیکھ کر میرا خون منجمد ہو چکا ہے، اور منجمد خون بہا نہیں کرتا۔

میرے اندر اٹھنے والا سوال یہ نہیں کہ اس کے پیچھے کون سی جماعت، ادارہ یا فرد ہے؟ بلکہ سوال یہ اٹھا کہ یہ سب کرنے والے کیا انسان ہیں۔

کسی انسان کا اگر یہ سب دیکھ کر دل کانپ نہ جائے اور خیال ششدر نہ رہ جائے تو پھر پہلے اس کے انسان ہونے کو دیکھنا ہو گا۔ بار بار دل مردہ سے آواز آئی کہ تم کون ہو، کیا کر رہے ہو، کس کا گلا کاٹ رہے ہو، اس کو مارتے ہوئے تمہیں اپنا بھائی نظر نہیں آتا، جس کو مار رہے ہو اس کا خدا چیخ چیخ کر پکار رہا ہے کہ میں نے تم کو اشرف المخلوقات اور ایک دوسرے کا بھائی پیدا کیا ہے۔

کیا اگر خدا کا کہا ہوا ہر لفظ حقیقت ہے، اٹل ہے، نوشتۂ دیوار ہے تو پھر بھائی بھائی کو کیسے مار سکتا ہے، اس کی جان کیسے لے سکتا ہے۔

سوال یہ اٹھا کہ ایک انسان کو مارنے والے کے ہاتھ کیوں نہیں کانپتے، وہ کھڑے کھڑے زندہ درگور کیوں نہیں ہو جاتا۔ اس کی آنکھ، آنکھ ہے یا پتھر جو نم نہیں ہوئی، اس کا دل دل ہے یا سمندر کنارے پڑے کسی کچھوے کا بے جان خول جس پر کچھ اثر ہی نہیں کرتا۔ یہ سب پاگل کیے دے رہا تھا کہ ایک آواز گویا دل میں جا لگی۔ آزمائش۔ بندوق دوں گا، طاقت بھی دوں گا، پھر دیکھوں گا تم کیا کرتے ہو۔

مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرا یا آپ کا ہی نہیں اوپر بہت اوپر بیٹھے اس خالق کا دل بھی کانپ گیا ہو گا۔ شاید اس کے دل سے بھی یہی صدا اٹھی ہو، یہ میری مخلوق نہیں، انہیں ایوبؑ یاد نہیں، یہ مکہ کی گلیاں کیسے بھول گئے، انہیں وہ سنگ زنی بھی یاد نہیں اور یہ محمدؐ کا صبر بھی بھول چکے ہیں۔

ویڈیو پر چلتے مناظر دیکھ کر پھر لگا کہ یہ انسان نہیں۔ مجھے ان کے مذہب سے کوئی غرض نہیں، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کس کے پیرو تھے، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے دل میں ’انا الحق‘ کی صدا تھی، یا مار دو لوٹ لو کی فغاں تھی۔ مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ وہ دو ہاتھ، دو ٹانگیں غرض یہ کہ وہ مجھ جیسے ہی تھے، پھر میں، کیوں کسی کو نہیں مارتا، مجھ سے لوگ روز اختلاف کی جسارت کرتے ہیں، اس ملک میں رہنے والے ہر شخص سے مجھے اپنی سوچ مختلف نظر آتی ہے، لوگ مجھ پر آوازے کستے ہیں، میں کیوں کسی کو نہیں مارتا، میں کیوں کسی کی بات سنوں، وہ ہے ہی غلط، جو قانون میں نے مردان یونیورسٹی کے باغیچوں میں دیکھا اس کے مطابق کسی انسان کو زمین پر بسنے کا حق، ’میں نہیں دیتا‘۔ اس کا اختلاف میری ہتک ہے۔

پھر آوازآئی اور اب کی بار آواز گرج دار محسوس ہوئی۔

’تمہاری ہتک کیا محمدؐ عربی کی ہتک سے بڑھ کر ہے‘۔

میں کانپ گیا اور خیال کو باہم مربوط کرنے لگا۔ کچھ وقت گذر گیا پھر خیال آیا نہیں یہ جو مرا ہے یہ میری ماں کی طرح کسی ماں کا لخت جگر تھا، کسی بہن کی زندگی کی امید تھا، کسی بیوی کی زندگی کی آرزو تھا، کسی بچے کے مستقبل کا ضامن تھا۔ یہ جو اس کو مار رہا ہے، اس کو کوئی روکتا کیوں نہیں، یہ پورا ایک خاندان ختم کر رہا ہے۔ اس نے اس پاک سرزمین کے آج اور کل کو تاریک کر دیا ہے۔

کوئی تو روکو، کوئی اسے سمجھاؤ یہ کیا کر رہا ہے، اسے سمجھاؤ اور اسے کہو آئے اور میری جان لے لے، اس دھرتی کے ایک بیٹے کو لے لے اور باقی کو امان بخش دے۔ مرنے والے کے جسم سے گرتی خون کی ہر بوند گویا اس کی دھرتی ماں کے سینے کو چھلنی کرتی تھی، میں دیکھ رہا تھا، اور ستم یہ کہ زندہ تھا۔

جانے کیوں، میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ دیر میں دیکھا کہ میری آنکھوں کے سامنے گویا خدا پکار رہا ہو، سنتے ہو یا ساکت ہو گئے، سنو! ’ایک انسان کا قتل گویا پوری انسانیت کا قتل ہے‘۔ بھول گئے شاید، اور پھر میں نے انسانیت کو اپنے سامنے دفن ہوتے دیکھا۔

آنکھیں کھولیں تو کچھ بھی نہ بدلا تھا، سب کچھ ویسے ہی تھا، میں بھی جیتا جاگتا وہاں موجود تھا۔ مجھے لگا کہ انسان ڈھیٹ ہے، ضدی ہے یا شاید انسان ہی نہیں۔ اس کے جسم کا خون بھی شاید منجمد ہو چکا ہے۔

محبت کا لفظ، قلم کو نفرت کی روشنائی میں ڈبو ڈبو کر لکھا جانے لگا۔ دل بجھتا ہے مگر احساس کی دبیز لکیر اندھیرے اور اجالے کا فرق واضح کرتی ہے۔ میرا خون ان تمام مادوں سے پاک لگنے لگا ہے جو جذبات کی بھٹی کا ایندھن ہیں۔ میری شہ رگ لفظ اگل اگل کر پھینکتی ہے۔ زبان دہک رہی ہے تو پھول بھی جلے ہوئے ہی نکلیں گے۔ میرا ضمیر مر چکا، اور میں زندہ ہوں۔ میرا توازن میرے اندر سے شروع ہوتا ہے اور تمام بیرونی سفر سے اس کا اختتام بھی میرے اندر ہوتا ہے۔ میری روح کی چیخیں اندر ہی دم توڑتی ہیں۔

مردان میں سینکڑوں چلتی پھرتی بدروحوں کے سامنے ایک جیتے جاگتے انسان کو انہی کی بستی جھونک دیا گیا۔ مردان یونیورسٹی چند مُردوں کے بھوت لیے دن بھر محو رقص رہی۔ رقص ندامت، رقص شرمندگی۔

اینٹ، گارا روتا رہا کہ اے خدا ان بدروحوں میں کاش تو نے ہمیں ہی شعور اور زندگی دے دی ہوتی تو زمین کو اس کرب اور آسمان کو اس عذاب سے ہم بچا لیتے۔

لگتا ہے درندے روز قیامت احتجاج کریں گے اور خدائے بزرگ و برتر سے درخواست کہ اے خدا درندے وہ ہیں جن کو تو نے اشرف المخلوقات قرار دیا۔ ہم تو ان سے زیادہ باشعور اور رحم دل ہیں۔ یہ تو اپنی ماؤں کے جنے بچوں کو اینٹوں اور پتھروں سے مسلنے میں بھی ذرا تامل نہیں کرتے۔

یہ جس عظیم بلکہ عظیم تر شخصیت کے عشق کا دم بھرتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ انؐ سے عشق کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا؟

خدائے بزرگ و برتر تُو فرماتا ہے۔ میں ہی زندگی دیتا ہوں اور میں ہی موت، اور میں ہی روز جزا کا مالک ہوں۔ مگر یہاں سوال کرنا، بات کہنا، رائے دینا، اظہار خیال کرنا جرائم ہیں۔ مگر اے خدا اس جنگل کا قانون یہ قرار پایا ہے کہ بس خاموش رہو اور پیچھے چلتے رہو تو سانس تمہاری وگرنہ ہم زمین کے خدا جو تمہارا سانس ایک لمحے میں کھینچ سکتے ہیں، کسی توہین کے مجرم نہیں۔ خدا کی توہین کے بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).